بلاگ
28 دسمبر ، 2016

سردیا ں : وہ باتیں تیری ، وہ فسانے تیر ے

سردیا ں : وہ باتیں تیری ، وہ فسانے تیر ے

ہم کراچی والے بھی کیا کریں ، سرد ہوائیں ابھی کراچی تک پہنچتی ہی نہیں کہ سردی کا موسم ختم ۔خود ہی دیکھ لیں دسمبر بھی ختم ہونے کو ہے اور کراچی کا موسم ہے کہ کسی طور سرد ہی نہیں ہو رہا ، بس درجہ حرارت ستائیس اور انتیس کے درمیان اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔

ابھی نیٹ پر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ شاید رات کے کسی پہر چودہ سینٹی گریڈ تک بھی جاتا ہے لیکن دوپہر میں نکل کر تو دیکھیں سورج کی چبھتی ہوئی کرنیں آپ کو پسینہ پسینہ کر دیتی ہیں ۔ ہم جیسے لوگ جو سردیوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں کہ اب آئیں سردیاں، کہ تب آئیں۔۔ آخر کریں تو کیا کریں!

کراچی شہر کے باسیوں کی طرح اس کے موسم بھی دوسرے علاقوں سے آتے ہیں ، کوئٹہ میں سرد ہوا چلے گئی تو کراچی بھی تھوڑا سرد ہو جائے گا اور اگر وہاں برف پڑ گئی تو سونے پر سہاگہ کراچی والے بھی تھوڑی دیر لحاف لپیٹ کر بیٹھ جائیں گے اور چند لوگ آگ میں ہاتھ تاپ لیں گے۔

ہم جیسے لوگ جو سردی کے انتظار میں سوکھ کر اب لحافوں کو چادروںمیں واپس لپٹ بھی چکے ۔ یہی نہیں وہ سوئٹر اور شالیں جو بڑے شوق سے مہنگی دکانوں سے خریدی گئی تھیں ابھی تک تن پر نہیں پڑ سکیں کیونکہ سردی ہی نہیں پڑی ۔

کبھی کبھی لگتا ہے کہ آج کل کے بچے تو یقین ہی نہیں کریں گے کہ کراچی میں بھی باقاعدہ سردیوں کی تیاریاں کی جاتی تھیں ۔ ر ضائیاں،لحاف اور ان کے استر پہلے سے تیار کروائے جاتے تھے ، کچھ خواتین تو خود ہی روئی دھن کر ڈورے بھی ڈال لیتیں۔

یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بہت سی پڑوسن خالاؤں ، نانیوں اور دادیوں کی سوئیوں میں ڈھاگے ڈالے ہیں ۔ یہی نہیں سوئیٹر بنے جاتے تھے، ان کے ڈئزا ین ایک دوسرے سے پو چھے جاتے تھے ۔ یہی نہیں خواتین کی جس تیزی سے زبان چلتی تھی اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ ان کی انگلیوں کے درمیان سوئٹر کی سلائیاں گھومتی تھیں ۔

مجھ جیسے سردیوں کے عاشق جو اسی انتظار میں رہتے ہیں کہ سردیاں آئیں گی تو گاجر کا حلوا بنے گا، سب سے بڑی بات گزک آئے گی ، گرم گرم مونگ پھلیاں کھائی جائیں گی ، نمکین پستے ، تھوڑے بہت کاجو اور بہت تھوڑے سے اخروٹ امی کی تجوری سے نکل کر ہمارے ہاتھوں کو بھی گرمائش پہنچائیں گے ۔

چلغوزے بچپن میں کھائے بہت ہیں ، مزہ بھی یاد ہے لیکن اب ہم اسے ٹھیلے پر ہی دیکھ کر رہ جاتے ہیں۔ اور اب وہ امی کی خاص تجوری کا حصہ ہی نہیں بن پاتے ۔ دس پندرہ برس پہلے ہی کی بات ہے جب ہم نے خود اپنے والد صاحب کو کچی مونگ پھولیاں اور چلغوزوں سے بھرے کاغذ کے بڑے بڑے تھیلوں کو گھر لاتے دیکھا ۔ مونگ پھلیاں گھر میں بھنی جاتیں اور پھر لحاف میں گھس کر کھائی جاتیں ۔

چلغوزے خاص کر امی کے لئے لائے جاتے تھے لیکن ان سے ہماری مٹھی بھی گرم ضرور ہو جاتی ۔ ابھی چند سال پہلے ہم نے بھی سوچا کے لاؤ ہم بھی پاپا کی طرح امی کا خیال رکھنے کی کوشش کریں اور ان کے لئے چلغوزے لے لیں لیکن جب قیمت پوچھی تو ہمیں تکلیف ہوئی کہ ہم بس مٹھی بھر چلغوزے ہی خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے ۔ تب احساس ہوا کہ کسی ڈاکو کے ذہین میں نہیں آیا ورنہ ایک چلغوزے کا ٹھیلا لاکھ کا تو ہوگا !

برسا ت ہی نہیں سردیوں کے ساتھ بھی خاص کھانوں کا جوڈ ہےجیسے آپ میں سے بہت سوں کے گھروں میں ریوڑی اور گزک آتی ہے۔تل کے لڈو تو ایک بار ہم نے بھی بنانے کی کوشش کی لیکن اب ہم اگر بنائیں بھی تو بس مونگ پھلی، السی اور تل کا چٹخا ہی بن پاتا ہے ۔ پائے، گڑ کے چاول ، سرسوں اور طرح طرح کے ساگ ،مکہ اور باجرے کی ٹکیاں او ر روٹی ۔ سبزرنگ ہونے کی وجہ سے ہم انہیں سمنٹ کی روٹی کہتے ہیں، میتھی اور باجرے کی کھچڑی، بنولے کی کھیر ، یہی نہیں بیسن کی رو ٹی ، آلو اور دال بھرے پراٹھے، لہسن کی بھنی چٹنی کے ساتھ ،مکس سبزی کا اچار ہی نہیں ، مولی شلجم کا پانی والا اچار ، اف ! کیا کیا یاد دلا دیا ۔

اللہ ہم کراچی کے باسیوں پر رحم کر ! سائبریا میں اور ٹھنڈی ہوائیں بھیج تاکہ وہ کوئٹہ میں ٹھنڈک لائیں اور کوئٹہ کی تھوڑی بہت سردی ہم کراچی والوں کو پنکھے بند کرنے ، لحاف اور سوئیٹر پہنے پر مجبور کر دے ۔۔آپ بھی ہماری طرح یقین رکھیں کہ جاتے ہوئے بھی جاڑا آ ٓسکتا ہے ، چاہے تین چار دن کے لیے ہی صحیح۔