بلاگ
11 جنوری ، 2017

’باجی مجھے سردی لگتی ہے ۔۔۔ ‘

’باجی مجھے سردی لگتی ہے ۔۔۔ ‘

عبداللہ، قریب کے ہوٹل میں کام کرنے والا تیرا چودہ سال کا بچہ ہے ، روشن آنکھیں، صاف سھترا لباس،پراعتماد اور مسکراتے عبداللہ کی جس خوبی نے پہلی بار ہمیں اپنی طرف متوجہ کیا تھاوہ یہ تھی کہ ایک نو عمر بچہ انگر یزی اخبار ہاتھ میں لیے بیٹھا ہے۔یک دم اس کے نام کی پکار پڑتی ہے اور وہ تیزی سے بھگتا ہے کہ’ آیا صاحب ! ‘

عبداللہ، آفس کی گلی میں واقع ہوٹل سے اکثرچائے اور ناشتہ لاتا ہے۔ جب کبھی سامنا ہوتا ہے تو ہم بھی حال چال پوچھتے ہیں ، کیا پڑھ رہے ہو؟ بہنیں اسکول جا رہی ہیں ؟ لیکن اس بار آیا تو کچھ ناراض سا تھا۔ پوچھنے کی دیر تھی کہ شروع ہو گیا ۔

’’ آپ نے جو اپنا پیپر دیا تھا پڑھنے کے لئے سردیاں : وہ باتیں تیری وہ فسانے تیرے۔پڑھا میں نے ۔ ۔۔لیکن مجھے آپ سے شکایت ہے ۔باجی !۔۔ ابا تھے تو مجھے بھی سردی نہیں لگتی تھی لیکن اب لگتی ہے۔شاید فرق صرف ابا کے نہ ہونے کا ہے ۔آپ نے جو کہانی لکھ ڈالی کہ کراچی میں سردی نہیں پڑی ۔ یہ کھانا نہیں ملا ،وہ کھانا نہیں پکا ۔آپ مونگ پھلیوں، میوں اور چلغوزوں کے غموں سے نہیں نکل رہیں اور ہم لوگ ’’مونگ پھلی گرم ‘‘کی آواز سن کر بس کے اس کے ٹھیلے سے ہاتھ تاپ لیتے ہیں ۔ پوری ٹھنڈ میں کبھی لے بھی لیں تو صرف چھٹانک دو چھٹانک۔! ‘‘

اس نے یہی بس نہیں کیا بلکہ مزید کہتا گیا’’باجی اورآپ جیسے پیٹ بھرے لوگ جن کے مطابق ہفتہ بھر پہلے تک کراچی میں سردی پڑی ہی نہیں جبکہ ہمیں اس وقت بھی سخت سردی لگتی رہی۔ کیوں ؟ سنیں! جب آپ ٹھنڈے فرش پر ایک ہلکی سی سوزنی بچھا کر سوتے ہوں اور اوڑھنے کو بھی فقط ایک بوسیدہ کمبل ہو ۔ اور کمرے میں دروازے کے نام پر ایک چادو کا پردا پڑا ہو ۔ اور آپ کے مطابق رات کے کسی پہر چودہ ڈگری تک پہنچ جانے والے درجہ حرات ہمیں کیسا برف کر دیتاہوگا ۔کبھی سوچا؟ نہیں نا ، لیکن اب سوچئے گا ! ‘‘

’’ہمارے گھر میں الحمداللہ ابا کے زمانے کے پتلی روئی کے دو لحاف ہیں۔ اماں اور بہنیں ماشااللہ لحاف میں سکڑ کر سوجاتیں ہیں ۔ بہنیں چھوٹی ہیں ابھی۔ باجی آپ برا نہیں منایئے گا ۔ مجھے بس آ پ کی یہ بات بری لگی کہ کراچی میں سردی نہیں آئی جبکہ یہ پڑھتے ہوئے بھی مجھے پچھلی رات لگنے والی سردی کا سوچ کر ٹھنڈ لگنے لگی ہے ۔‘

جہاں تک کھانے کی بات ہے توہم لوگ بھی سردی کا مزہ لیتے ہیں ۔ سب سے اچھا میٹھا تو گڑ ہے ، گرم روٹی پر گھی اور گڑچپیڑ کر کھایا ہے کبھی؟ ،نہیں ؟ تو کھائے گا پھر !۔گرم پراٹھے ، بیسن کی روٹی اور چٹنی ،تلی ہوئی مرچیں ہی نہیں انڈے آلوکا سالن بھی کیا مزے کا کھانا ہے وہ بھی ہرے دھنیے اور گرم مصالحے کے ساتھ۔ اف !میرے منہ میں تو سوچ کر ہی پانی آگیا ۔سمجھ لیں یہ ہی ہمارے پائے او ر یہی ہمارا قورمہ ۔‘‘

آپ نے لکھا کہ اب کوئی سوئٹر نہیں بنتا تو دیکھیں کبھی میری ما ں کے محنت کش ہاتھوں کو، کس تیزی سے چلتے ہیں۔ہم لوگ تو اماں کے ہاتھ کے بنے سوئٹر پہنتے ہیں ، میرے پاس دو سوئیٹر ہیں ۔ اماں بتا رہی تھیں کہ ان کے پاس ابا کا سفید رنگ کا سوئٹر ہے جب میں اور بڑا ہو جاؤں گا تومیں پہنوں گا ۔ ویسے ایک بات کہوں مجھے شرمندگی تو نہیں کہ میرا یہ والا سویٹر اماں نے لنڈابازار سے خریدا ، ادھیڑا ا ور دھو کر پھر سے نئے ڈیزائن کے ساتھ بن دیا ۔ مان گئی نا کہ میری ماں ایک سمجھدار اور سلیقہ شعار خاتون ہیں ۔ ‘‘

’’وہ گھر میں کروشیہ بھی بنتی ہیں بستر کی چادریں، ٹیبل میٹس اور شرٹس۔ چار دن میں ہی پوری قمیص بن کر تیار کر دیتی ہیں ۔ دیکھا ہے میں نے ان کے ہاتھ کے بنے لباس زینب پر بکتے ہوئے ۔ اور والدہ کو بتایا بھی تھا کہ جس کام کے ان کوتین سو روپے ملے وہ دو ہزار میں بک رہی تھی ۔ مجھے تو افسوس ہو الیکن ان کو نہیں کہ محنت میں عظمت ہے۔‘‘

’’باجی حیران نہیں ہوں، جانتی ہی ہیں کہ اخبار پڑھتا ہوں ۔ ابا کے مرنے سے پہلے میں بھی اسکول جاتا تھا ، چار سال پہلے تک ایک سرکاری اسکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا،اچھا پڑھتا تھالیکن اب فقط گھر کا کماؤ پوت بیٹاہوں ۔ اب میں خود ابا کی جگہ پر ہوں اور چاہتا ہوں کہ اماں اور بہنوں کو عزت ملنے کے ساتھ بھوک اور سردی بھی نا لگے ۔بہنوں کا ہی صحیح ،بچپن اور سرکاری اسکول چلتا رہے۔ ‘‘

ابا کے مرنے کے بعداسکول ، بستہ اور کھیل کود چھوٹا لیکن افسوس نہیں ۔میں محنت اور امتحان کی تیاری کر رہا ہوں تین سال میں میڑک کا امتحان پاس کر لوں گا ۔ باجی ! آیندہ اپنے شوق میں ہم جیسے لوگوں نہیں بھول جائے گا کہ کراچی میں سردی نہیں آ ئی ۔آپ ناراض تو نہیں ؟‘‘

۔۔۔ اور باجی خاموش تھی کہ عبداللہ نے کچھ بولنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا تھا ۔