بلاگ
11 مارچ ، 2017

شکر اللہ کہ میں بیٹی ہوں

شکر اللہ کہ میں بیٹی ہوں

پچھلے سال کی خبر تو سب کو یاد ہو گی کہ ایک ماں اور بھائی نےمل کرستراسالہ زینت رفیق کو زندہ جلا ڈالا اور وہ بھی صرف پسند کی شادی کرنے پر ! عدالت زینت کی ماں کو پھانسی کی سزا سنا چکی ہے لیکن میری ناقص عقل کے مطابق یہاں بھی ،بھائی کی غیرت نے جوش مارا اور ماں نے بیٹے پر آئی مصیبت کو اپنے سر لے لیا اور ایک بار پھر ماں ،بیٹی کو ’ذبح‘ کرکے خود بیٹے پر قربان ہو گئی ۔

زینت کی ہولناک خبر ہو یا نتھا گلی میں دوست کی مدد کرنے پرعبرین کو جلا ڈالنے والی شہ سرخیاں ۔ کاروکاری پر موت کی سزا ہو یا جرگےکا فیصلہ ۔ماریہ کا رشتہ سے انکار ہو یا کچھ اور ۔۔۔اکثریت کا انجام ایک ہی ہے، موت ! چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی ۔

صد افسوس جب والدین اپنی ہی بیٹی کو ایک بوجھ اور شرمندگی سمجھنے لگیں اوراپنی ہی بیٹی کے مجرم بن بیٹھیں تو یہ خبریں چبھتی تو سب کو ہیں لیکن بولتا کوئی نہیں۔ کتنے ہی ویمن پروٹیکشن بل ، این جی او ز اور ’وومن ڈے آجائیں ‘جب تک ذہن کو نہیں بدلیں گے ہماری بیٹیاں اسی طرح موت کی نیند سوتی رہیں گی۔

ہماری آبادی کاپینتالیس فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور صرف بارہ فیصد خواتین اسکول کی شکل دیکھتی ہیں۔ تعلیم کے دروازے بند کرنا ہی ان پر اصل ظلم ہے جن والدین نے بیٹیوں کو حوصلہ مند اور تعلیم یافتہ بنایاانھوں نے سہارا نہیں ڈھونڈا بلکہ خود دوسروں کا سہارہ بنیں ۔ سو ! مان لیں کہ تعلیم ہی ایک عورت کا ہنر اور تبدیلی کا اظہار ہے ۔

لیکن ان تمام دل دہلانے والی باتوں سے قطعہ نظر ،کچھ مناظر اتنے دلفریب ہوتے ہیں کہ جلتے دلوں پر مرہم بن جاتے ہیں ۔جیسے آج ایک شفیق باپ کو بیٹی کا ہاتھ پکڑے، اس کا بستہ اٹھائے اسکول چھوڑنے جاتے دیکھا ۔دل خوش ہو گیا ۔ مجھے تو ہر شفق باپ کے چہرے میں اپنے باپ کی تصویر نظر آتی ہے ۔ کیا آپ کو بھی ؟

کبھی خیال آتا ہےکہ ہم پانچ بہنوں کا صرف ایک بھائی ہےتو کیا کبھی ہمارے والدین بھی ہم بہنوں کی وجہ سے پریشان ہوتے ہوں گے ؟ کیا انہیں بھی اللہ سے شکایت رہی ہوگی کہ کیوں ان پر پانچ پانچ بیٹیوں کا بوجھ ڈالا گیا ؟ لیکن ان سے بغیر پوچھے بھی بتا سکتی ہوں کہ ہم نے کبھی ان کے چہرے پر ہم بہنوں کے لئے فکر مند نہیں دیکھا ۔

ثبوت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے عام چلن کے مطابق ہمارے والدین نے کبھی اپنے اکلوتے بیٹے کے لاڈ نہیں اٹھائے۔ ہاں! بیٹیوں کے ضرور اٹھائے ۔ اور اکثر ہی گھر کےاکلوتےچشم و چراغ کو، ہتھیلی کا چھالا بنانے کے بجائے جھڑکیاں کھاتے دیکھا۔

ہمارے والدین نے سب بچوں کو سونے کا نیوالا کھلایا اور شیر کی نگاہ سے ضرور دیکھا ،لیکن ہمیشہ ہی ہمارے لیے ان آنکھوں میں شفقت رہی ۔ ساتھ ہی ہمیں بھی بغیر کہے معلوم تھا کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں ۔ضد کی قطعی گنجائش نہیں ۔ہاں ہم بیٹیوں کو سیکھایا گیا کہ گر گئے ،چوٹ لگ گئی،کوئی بات نہیں، کھڑے ہو جاو اور آگے بڑھو ۔

بیٹی کو کیسا حوصلہ مند بنایا جاتا ہے ؟ سب باپ جان لیں ۔ ایک بار بھائی کی شکایت کرتے ہمارے آنسو نکل پڑے لیکن بھائی کو ڈانٹ کیا پڑتی ہم نے پہلے ڈانٹ کھائی کہ رونا بند کرو اور پوری بات بتاؤ ، بڑا شوق ہے و کیل بنے کا تو اپنی بات کہنا سکھو اور اتنی اتنی سی باتوں پر رو گی تو باہر نکل کر کیا کرو گی ؟ آج ہم وکیل تو نہیں بن سکے لیکن یہاں تک بھی ان کی وجہ سے ہیں ۔ شکریہ پاپا کہ ہم آپ کی بیٹیاں ہیں ۔ورنہ معاشرے میں ہزارہا بنت حوا رولتی پھرتی ہیں۔