21 اپریل ، 2017
اُدھر شمالی کوریا وقت کی سپر پاور امریکا کو دھمکی دیتے ہوئے للکار رہا ہے کہ امریکا کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے اور اِدھر ہم گلی گلی، محلہ محلہ بس پاناما پاناما کیے جا رہےہیں، سیاست دان ہو یا کوئی چھابڑی فروش اس کی زبان پر بس ایک ہی لفظ ہے اور وہ ہے پاناما۔
گزشتہ روز کے فیصلے کے بعد بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں، فیصلے کی ایسی ایسی تشریحات کی جا رہی ہیں کہ خدا کی پناہ، دلچسپ بات یہ ہے کہ فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان تحریک انصاف دونوں کے چوٹی کے رہنماؤں سے لے کر دوسرے تیسرے درجے کی قیادت تک سب مٹھائی کھاتے اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے پائے گئے۔
وکلا کے تبصرے تو سمجھ میں آتے ہیں، ہم نے گلی کے نکڑ میں کھڑے جمعدار سے ایسی ایسی تشریحات سنیں کہ دانتوں تلے پسینہ آ گیا، یوں لگتا ہے کہ ہر طرف بس پاناما کا شور ہے، وزیر اعظم کو سزا ملنا گویا دنیا کا کوئی سنگین مسئلہ ہے اور پاناما کا فیصلہ اگر پی ٹی آئی کے حسب منشا ہو جاتا تو پاکستان کے سارے مسئلے حل ہو جاتے، ہر طرف دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جاتیں، اسپتال بن جاتے، اسکول، کالج، یونیورسٹیاں گویا اگنا شروع ہو جاتیں، ویسے اگر ایسا ہو بھی جاتا اور کوئی متبادل قیادت آ جاتی تو پھر کیا ہوتا اور اگر اگلے انتخابات میں اپوزیشن پارٹیوں میں سے کوئی کامیاب ہو جاتا، مثلاً پاکستان پیپلز پارٹی تو کیا ہوتا، اسی پارٹی کی حکومت نے محترمہ کی شہادت کے بعد جب حکومت بنائی تو کیا ایسا کیا جس کے لیے ان کو دوبارہ موقع دیا جائے، اگر تحریک انصاف کامیاب ہو جائے گی تو کیا وہ وہی کرے گی جو کے پی کے میں گزشتہ 4سال سے کر رہی ہے، اس سے اچھی کارکردگی تو پنجاب میں شہباز شریف کی ہے اور جناب یہ ہم نہیں کہہ رہے غیر جانب دار سروے بتا رہےہیں۔
اچھا چلیں مان لیتے ہیں کہ وزیر اعظم پر لگائے گئے الزامات درست ہیں تو کیا باقی سب دودھ کے دھلے ہیں، آج سابق صدر آصف زرداری نے وزیر اعظم صاحب کو چتاؤنی دی ہے کہ آپ کو نکالے جانے تک ہم پیچھے لگے رہیں گے، بلاول بھی میدان میں آ گئے ہیں، انہوں نے پرانی بات دھرائی کہ شریفوں پر کوئی قانون لاگو نہیں ہوتا، تو وزیر داخلہ کہاں پیچھے رہنے والے تھے، انہوں نے فرمایا کہ قرب قیامت ہے کہ زرداری امین اور صادق ہونے کا لیکچر دیں۔
سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے گو نواز گو کے نعرے لگائے اور وزیراعظم کے فوری استعفے کا مطالبہ کر دیا، عمران خان نے بھی وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے کہ جب تک جے آئی ٹی کام کرے گی کوئی اور وزیر اعظم ہونا چاہیے اور امیر مقام نے جوابی وار کرتے ہوئے بیان دیا کہ وزارت عظمیٰ ہمیں خیرات میں نہیں ملی کہ استعفیٰ دیں۔
ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر فرض کر لیں کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے بھی دیتے ہیں تو اگلا وزیر اعظم بھی تو ن لیگ کا ہی ہو گا تو پھر بھی تو جے آئی ٹی پر پریشر رہے گا یہ تو مسئلے کا حل نہ ہوا لیکن تحریک انصاف کے سربراہ کےلیے مسئلہ ہی نواز شریف کا وزیر اعظم ہونا ہے، سوچنا یہ ہے کہ اگر نواز شریف استعفیٰ دے دیتے ہیں تو پھر عمران کیا کریں گے، کیونکہ 3سال سے ان کی سیاست کا محور بس نواز شریف کا استعفیٰ ہی ہے،لیں جی ایک اور خبر یہ کہ اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ میرا کیس بھی پاناما میں جانا چاہیے۔
پاناما سے ہٹ کر ایک اہم بات یہ ہے کہ فوج کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف حکومت کی طرف سے این او سی ملنے کے بعد سعودی عرب روانہ ہو گئے جہاں وہ اتحادی افواج کی قیادت کریں گے اور پاناما سیاست سے دور رہیں گے۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں)