10 مئی ، 2017
خلافت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مجھے ہمیشہ سے ترکی اور ترکی کے لوگوں سے محبت رہی ہے، میری رائے میں یہ محبت ہر اس شخص کو ہو گی جسے خلافت عثمانیہ، اسلام اور امت مسلمہ جیسے الفاظ متاثر کرتے ہوں گے۔
ہمارا بچپن نسیم حجازی کے تاریخی ناول پڑھتے گزرا، اس لیے مسلم امہ کا کھویا ہوا تمدن ہمارے دور کا ہر آدمی ڈھونڈ رہا ہے، برعظیم پاک و ہند کے مسلمان خلافت عثمانیہ سے کتنی محبت کرتے ہیں اس کی مثال تحریک خلافت میں قربانیوں کی انوکھی داستانوں سے ملتی ہے،ترک صدر نے اپنے پہلے دورۂ پاکستان میں اس کا حوالہ بھی دیا۔
چند برس پہلے پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹو کلب کے ایک عشائیے میں ایک خوش وضع اور شائستہ شخص سے ہمیں متعارف کروایا گیا کہ یہ ہمارے ترک اسکالر دوست ڈاکٹر درمش بلگر ہیں، بین الاقوامی سطح کے محقق ہونے کے ساتھ ساتھ آج کل پاکستان میں رومی چیئر کے سربراہ ہیں۔
ابھی ہم انگریزی میں مناسب الفاظ کا انتخاب کر ہی رہے تھے کہ ہمارے اس ترک مہمان نے شستہ اردو میں یہ کہہ کر حیران کر دیا کہ زابر صاحب! آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ،اس کے بعد دوستی ایک گہرے تعلق میں بدل گئی،5سال پاکستان میں گزار کر ڈاکٹر درمش اور ان کی فیملی واپس ترکی جا رہی ہے۔
پاکستان میں قیام کے حوالے سے یہاں کی معاشرت اور لوگوں کے رویوں پر ان سے تفصیلی گفتگو ہوئی، پاکستان میں ڈاکٹر درمش لاہور، کراچی، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، مظفر آباد، سرگودھا، پشاور اور دیگر شہروں میں گھومے لیکن لاہور ہمیشہ ان کی یادوں کا محور رہے گا کیونکہ اسی شہر میں ان کے بچوں کی اسکولنگ ہوئی، ان کی ایک صاحبزادی فریدہ لاہور کے فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں فائنل ایئر کی طالبہ ہیں، دوسری بیٹی شکران سیکنڈ ایئر کر رہی ہیں اور دو بیٹے محمد اور الپرن بھی لاہور میں زیر تعلیم ہیں۔
درمش نے بتایا کہ 5برس پہلے جب میں نے اپنی اہلیہ فاطمہ اور بچوں کو بتایا کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں تو سب نے مخالفت کی لیکن آج ہم سب آزردہ ہیں، میری اہلیہ بہت اداس رہتی ہیں اور پاکستان سے جانا نہیں چاہتیں، یہی حال میرا اور میرے بچوں کا ہے، ہم جولائی میں یہاں سے چلے جائیں گے لیکن ہمارے دل پاکستان اور پاکستان کے لوگوں کے ساتھ اٹکے رہیں گے، میں نے ڈاکٹر درمش سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ترکی نے مغربیت کی انتہا دیکھ لی ہے، اب وہ اپنی مشرقی اقدار کی طرف لوٹ رہا ہے لیکن پاکستانی معاشرت میں ابھی تک مشرقیت موجود ہے، یہاں حیا اور شرم کو آج بھی اہمیت دی جاتی ہے، ہمارے یہاں کی طرح مغرب زدہ فحاشی کا پاکستان میں تصور تک نہیں ہے، گو لوگوں کے اذہان مغربیت سے آلودہ ہو رہے ہیں لیکن ابھی بھی یہاں کے لوگوں کا طرز معاشرت صاف ستھرا ہے، اسی لیے مجھے اور میری فیملی کو پاکستان بہت پسند ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں پاکستانی کھانوں میں بریانی، سری پائے، کڑھائی گوشت اور حلیم بہت پسند آئے جبکہ میٹھے میں وہ گلاب جامن اور برفی کو ہمیشہ یاد رکھیں گے، لباس کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ شلوار قمیض بہت آرام دہ لباس ہے، اسی لیے ہم پاکستان سے ڈھیر سارے سلوا کر لے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر درمش نے بتایا کہ زیتون کا تیل پاکستان میں خالص کہیں بھی دستیاب نہیں ہے، اسی طرح یہاں کا پستہ اور پنیر بھی ترکی کی طرح کا خالص نہیں ہے ،چچا غالب کی طرح ہمارے ترک دوست بھی آم کے دیوانے نکلے، انہوں نے اپنی اہلیہ فاطمہ کے حوالے سے بتایا کہ ترکی میں ایک سبزی پائی جاتی ہے جسے پراسا کہتے ہیں، اس کو ہم نے پاکستان میں بہت مس کیا تاہم تمام پاکستانی سبزیاں ہم بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام کے حوالے سے درمش بولے کہ یہاں رٹا سسٹم ہے جبکہ ترکی میں ایسا بالکل نہیں ہے، ہمارے یہاں جمناسٹک، موسیقی اور آرٹ بنیادی تعلیمی نظام کا حصہ ہیں۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال پر ہمارے ترک اسکالر دوست کی رائے یہ تھی کہ پاکستان میں جمہوریت کو چلتے رہنا چاہیے، پاکستان اور ترکی میں کئی حوالوں سے مماثلت ہے،ہم بھی 15برس پہلے تک قرضوں میں ڈوبے ہوئے تھے اور احساس کمتری کا شکار تھے، ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے، پاکستان بھی ایک عبوری دور سے گزر رہا ہے، ترکی کی طرح بہت جلد اس صورتحال سے باہر آ جائے گا، میں پاکستان کا مستقبل بہت روشن اور شاندار دیکھتا ہوں۔
ڈاکٹر درمش بلگر سے کئی برسوں پر محیط طویل ملاقاتیں ہمیشہ یادگار رہیں گی، گزشتہ برس لاہور پریس کلب میں میری کتاب ’پاکستان اور فوج‘ کی تقریب پذیرائی میں ڈاکٹر درمش نے اعلان کیا تھا کہ ترکی واپس جا کر وہ میری اس کتاب کا ترکی زبان میں ترجمہ کریں گے کیونکہ پاکستان اور ترکی میں زیادہ عرصہ فوج حکمران رہی ہے، اس حوالے سے دونوں ممالک کے عوام نے ایک جیسے حالات کا سامنا کیا ہے، وہ ترک عوام کو پاکستان کے سیاسی حالات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں، اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمارے یہ ترک دوست جہاں بھی رہیں خوش اور آباد رہیں۔
(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر 50کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز صحافی، محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)