بلاگ
12 مئی ، 2017

خطے کی بدلتی صورتحال اور پاکستان

خطے کی بدلتی صورتحال اور پاکستان

سوویت یونین جب اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا تو اس نے بد مست ہاتھی بن کر ریڈ آرمی کو افغانستان تہس نہس کرنے ٹاسک دے دیا، ان دنوں دنیا میں دو ہی سپر پاورز تھیں ایک امریکا اور دوسرا سوویت یونین، پاکستان امریکا کا اتحادی تھا اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کا مربی سوویت یونین تھا۔

جب چاند پر بھی امریکا کی مد مقابل گرم پانیوں کی متلاشی دنیا کی دوسری سپر پاور نے پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان پر حملہ کر دیا، اس دن سے آج تک یہ خطہ کسی نہ کسی صورت عالمی طاقتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔

پاکستان نے امریکا کی مدد سوویت یونین کو تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا لیکن اس جنگ کے اثرات سے آج تک باہر نہیں نکل سکا، رہی سہی کثر نائن الیون نے پوری کر دی لیکن اس مرتبہ صورتحال مختلف تھی، نظام شمسی کے اس سیارے جس میں ہم انسان بستے ہیں یعنی زمین پر ایک ہی سپر پاور تھی اور وہ تھی ریاست ہائے متحدہ امریکا۔

سوویت یونین کے خاتمے سے دنیا میں طاقت کا توازن بگڑ گیا اور 7ارب انسانوں پر امریکا بہادر کی پالیسیاں مسلط ہو گئیں، جس کے اثرات سے ایک نئی سپر پاور وجود میں آ رہی ہے ،جس کا نام عوامی جمہوریہ چین ہے ،جی ہاں وہی چین جس کو کبھی افیونیوں کا دیس کہا جاتا تھا اور آج و ہ اپنی ان تھک محنت اور جذبے کی بدولت امریکا کو للکار رہا ہے۔

وقت بھی کیا کیا رنگ دکھلاتا ہے جس روس کے ساتھ امریکا کی مدد سے ہم نے جنگ لڑی وہ آج پاکستان کی حمایت کر رہا ہے اور ہمارا پرانا دوست امریکا ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھا کر اپنے پرانے ساتھی کے دل کر چھریاں برسا رہا ہے۔

بھارت کی چین سے کبھی نہیں بنی اور ہماری بھارت سے بن نہیں سکتی، چنانچہ چین کی پاکستان سے دوستی اب امریکا اور اس کی نئی محبت بھارت کو ایک آنکھ نہیں بھاتی، بھارت کی نئی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں امریکا سر فہرست ہے اور روس کو پہلے والی اہمیت حاصل نہیں رہی۔

یہ تو ہے ہمارے خطے کی صورتحال، چونکہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اس لیے مشرق وسطیٰ کی سیاسی صورتحال کے اثرات بھی یہاں اثر انداز ہو رہےہیں، ترکی اس تناظر میں پاکستان کی حمایت کر رہا ہے، ایرانی جنرل کا بیان، بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی میں اضافہ، لائن آف کنٹرول کی مسلسل خلاف ورزی، پاک افغان بارڈر پر کشیدگی یہ سب ایک ہی طرف اشارہ کر رہےہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سول حکومت اور فوج بین الاقوامی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے محاذ آرائی سے گریزاں ہیں اور یہ خوش آئند ہے، میں چند ماہ سے اپنے تمام کالموں اور لیکچرز میں اسی بات پر زور دے رہا ہوں کہ ہم گریٹ گیم کا حصہ بن چکے ہیں، ہمیں پاناما پاناما کی سیاست سے نکلنا ہو گا۔

آج جی ایچ کیو میں سہ فریقی فوجی حکام کا اجلاس بھی ہوا جس میں  داعش کے خطرے کے خلاف مشترکہ حکمت عملی کی اہمیت پر بات ہوئی۔

مستونگ میں سڑک کے کنارے ہونے والے دھماکے میں 27 افراد جاں بحق اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری سمیت متعدد زخمی ہو گئے، اسی عالمی سازش کا شاخسانہ ہے جس کے تانے بانے اب پاکستان میں بنے جا چکے ہیں، خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے اور مسلسل بج رہی ہے۔

ہماری نجات صرف اور صرف اسی میں ہے کہ ہر قسم کے مذہبی، گروہی، لسانی، علاقائی اور دیگر تعصبات کو بھلا کر ایک ہو جائیں اور دشمن کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔