بلاگ
04 جون ، 2017

پھلوں کا بائیکاٹ، معاشی،معاشرتی اور نفسیاتی پہلو

پھلوں کا بائیکاٹ، معاشی،معاشرتی اور نفسیاتی پہلو

پھلوں کے بائیکاٹ کے حوالے سے تین روزہ مہم اختتام پذیر ہو گئی اور بے شمار سوالات کا تسلسل چھوڑ گئی،جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے معاشرے کا ایک طبقہ اس کی مخالفت کر رہا ہے اور دوسرا اس کی حمایت۔

حکومتی ارباب اختیار اور ان سے مخلص افراد اس مہم کے نفسیاتی پہلو اور اس کے مابعد اثرات سے سے بخوبی آگاہ ہیں کیونکہ اس سے حکومت کی اشیائے خورد و نوش کو کنٹرول رکھنے کے حوالے سے ناکامی ظاہر ہوتی ہے اور کوئی پاپولر سیاست دان معاشرے کی اس شعوری ادراک کا بڑی خوبصورتی سے استعمال کر کے کسی بھی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

اس کے اگر معاشرتی اور معاشی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو یہ ہمارے سماج کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ ہے کہ ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان آخر کر کیا رہے ہیں؟کیا ہم ذخیرہ اندورزی کرتے وقت اپنے رب کے واضح احکامات کو بھول جاتے ہیں؟ یا کیا ہم کسی کافر سماج کا حصہ ہیں ،جو اللہ کے احکامات کی بجا آوری کو فرض نہیں سمجھتا؟

لیکن دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے، جن پر ہم صبح و شام کفر کے فتوے لگاتے ہیں، وہاں کرسمس سے پہلے ہر چیز سستی کر دی جاتی ہے اور ہم جو خود کو اسلام کا پرچم بلند کرنے والی قوم کہتے ہیں اور دنیا بھر میں اسلام کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں، اپنی ذرا اخلاقی گراوٹ کی سطح کو چیک کریں تو شرم سے  پانی پانی ہو  جائیں گے اور رب  سے تو کیا شیطان سے بھی نظریں نہ ملا پائیں گے۔

ہم حکومت کے مجسٹریٹ سے تو ڈر جاتے ہیں،لیکن اپنے رب سے نہیں ڈرتے، جس کے حضور ہم نے آخر کار لازماًپیش ہونا ہے،یہ سب ذخیرہ اندوذ اور مہنگائی کا سونامی بپا کرنے والے کیا اسرائیل سے آئے ہیں یا سیارہ مشتری سے کہ انہیں اس گناہ کا ادراک نہیں۔

یہ ہماری قوم کا بحیثیت مجموعی وہ رویہ ہے، جس پر زمین اور آسمان کی ساری مخلوقات کو بھی شرم آتی ہو گی،ہمارے یہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا راج ہے، جب جی چاہتا ہے ادویات سمیت ہر چیز کی قیمت میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اس میں کسی بجٹ کا کوئی قصور نہیں ہوتا،وہی کمپنی ہمسایہ ملک میں دس روپے کے بکنے والی چیز پاکستان میں 200 روپے میں فروخت کرتی ہے کیونکہ یہ لوگ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہمارے معاشرتی رویوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور ہماری منافقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔

یہ مہم ناکام ہوئی ہے یا کامیاب ہم اس بحث میں نہیں پڑتے ہم اس بحث میں بھی نہیں جاتے کہ ایسا کرنا چاہیے تھا یا نہیں لیکن ایک سوشل سائنٹسٹ کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ ایک وارننگ ہے، ہمارے سماج کے منافقت سے بھرے رویوں کے لیے اور ان ظالموں کے لیے جو اپنی قبروں کو بھولے بیٹھے ہیں،یہ وارننگ ہے ان لوگوں کے لیے بھی جو عوام کے طاقت کا غلط اندازہ لگائے بیٹھے ہیں،یہ اجارہ دار طبقے کے لیے بھی لمحہ فکر ہے اور ہم سب کے لیےبھی اس میں سبق پوشیدہ ہے۔

(صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر پچاس کتابوں کے مصنف ہونے کے ساتھ ممتاز صحافی،محقق اور ابلاغ عامہ کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں، حال ہی میں  بہترین میڈیا ایجوکیشنسٹ بھی قرار پائے ہیں)