پاکستان
26 جولائی ، 2017

نااہلی کیس: سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین سے 5 سوالات کے جواب طلب کرلیے

نااہلی کیس: سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین سے 5 سوالات کے جواب طلب کرلیے

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق مسلم لیگ نون کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بینچ آئینی درخواست کی سماعت کی۔

عدالت نے جہانگیر ترین کے وکیل سے 5 سوالوں کے جواب طلب کیے جن میں سوال نمبر ایک جہانگیرترین کا ٹرسٹ کب بنا؟ سوال نمبر 2، جہانگیرترین کی آف شور کمپنی کب بنی؟ سوال نمبر 3،  کمپنی کا لیگل اور بینیفیشل آنر کون ہے؟ سوال نمبر 4، آف شور کمپنی کتنی رقم سے کب بنائی گئی اور سوال نمبر 5، 2002 سے 2017 تک جہانگیرترین نے بچوں کو رقم بطور گفٹ کتنی مرتبہ بھجوائی؟

اس سے قبل دوران سماعت حنیف عباسی کے وکیل نے عدالت میں متفرق درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ عدالت جہانگیر ترین سے تحفے میں دی اور وصول کی گئی رقوم کی تفصیلات طلب کرے۔

حنیف عباسی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ جہانگیر ترین نے تسلیم کیا کہ ان کے بچوں کی آف شور کمپنی ہے جب کہ انہوں نے الیکشن کمیشن میں مختلف بیان دیا اور ٹیکس گوشواروں سے متعلق دیا گیا بیان مختلف ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے 5 سال کے دوران اپنے بچوں کو ایک ارب 45 کروڑ روپے کی رقم تحفے میں دی جب کہ انہوں نے 2015 میں تقریبا 7 کروڑ روپے بطور تحفہ بچوں سے وصول کیے اور ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کو شو کاز نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ 

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ جو دستاویزات ہمیں دے رہے ہیں وہ کہاں سے آئیں جس پر حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ یہ تمام دستاویزات سوشل میڈیا پر موجود ہیں جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ ان دستاویزات پر دستخط موجود ہیں، نیٹ پر سائن تو نہیں ہوتے۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے حنیف عباسی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ آرٹیکل 62 کے تحت جہانگیر ترین کی نااہلی چاہتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں جہانگیر ترین دیانتدار نہیں رہے جب کہ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ 500 پارلیمینٹرینز میں جسے ایس ای سی پی نوٹس دے کیا وہ نااہل ہو سکتا ہے۔

اس موقع پر حنیف عباسی کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ جہانگیر ترین کے خلاف 4 آئینی گراؤنڈز ہیں، جہانگیر ترین نے زرعی اراضی چھپائی اور ٹیکس ادا نہیں کیا جب کہ شوگر ملز کی انکوائری کے وقت وہ وزیر صنعت و پیداوار تھے، قانون کے تحت ان سائیڈر ٹریڈنگ کی ممانعت ہے، جہانگیر ترین اثاثے ظاہر نہ کرنے پر صادق اور امین نہیں رہے۔

حنیف عباسی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرا موقف ہے آف شور کمپنی جہانگیر ترین کی اپنی ہے، ان کے بچوں کی نہیں جس پر جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں جو بچے اربوں روپے تحفہ لے رہے ہیں وہ انڈیپنڈنٹ کیسے ہوسکتے ہیں۔

حنیف عباسی کے وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی بننے کی ایک وجہ یہ تھی والدین، بچوں میں بے تحاشا تحائف کا تبادلہ ہوا جس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا آپ اپنی جماعت کی طرف سے یہ مقدمہ لڑرہے ہیں جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ مفروضوں پر کسی کو نااہل نہیں کر سکتے، یہ اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے اور ہم نے کسی کو غیرصادق قرار دے کر نااہل کرنا ہے۔

مزید خبریں :