07 اگست ، 2017
عیسیٰ نگری کی رہائشی انجلینا کا گھر بھی ان ہزاروں پاکستانی گھرانوں میں سے ایک تھا جہاں اکثر چادر تنگ رہتی اور پائوں پھیلے رہتے۔اور جب ایسے گھر میں بیٹیاں ہوں توان کو "مرے ہوئے پر سو درے " سمجھا جانا کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ میاںناکارہ اور بیٹا چھوٹا ۔ یہ انجلینا کا ہی حوصلہ تھا کہ وہ خود گھروں میں کام کر کے زندگی کی دوڑ کھینچ رہی تھی ۔
انجلینا اس امید پر اپنی بچیوں کو سرکاری اسکول بھیجتی رہی کہ بچیاںپڑھ جائیں گی ۔ان کے بھی دن بدلیں گے لیکن اس کے خوابوں کو کسی کی نظر لگ گئی ۔
انجلینا کی بڑی بیٹی سبیتا ابھی دسویں جماعت میں آئی ہی تھی کہ اس نے ماں سے شکایت کی کہ اکثر اسے بلیک بورڈنظر نہیں آتا،آنکھوں سے پانی گرنے لگتا ہے۔ پھر پہلے ایک آنکھ کی بینائی دھندلانے لگی اور چند ہفتے بعد دوسری آنکھ بھی متاثر ہونے لگی۔
انجلینا بی بی سبیتا کی تکلیف پر بروقت توجہ ہی نہیں دے سکی بلکہ اصل بات تو یہ تھی کہ سرکار ی اسپتال جانے کا وقت کس کے پاس تھا اس لئے بے چاری سبیتا محلے کے عطائی ڈاکٹرکے ہتھے چڑ گئی۔
عطائی کے دیئے ہوئے قطروں سے صرف وقتی آرام آیا۔کچھ عرصہ قبل ہی عطائی نے انجلینا کو صاف جواب دے دیا کہ بیٹی کو کسی بڑے اسپتال میں دکھائو کیو نکہ اب آنکھوں کا انفیکشن مزید بڑھ کر بینائی کو متاثر کرسکتا ہے۔
انجلینا تو سر پکڑ کر بیٹھ گی کہ بینائی ہی نہ رہی تو سبیتا کا مستقبل کیا ہوگا؟ چار روپے ہاتھ میں نہیں ۔ جائے تو جائے کہاں! باپ کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور خود سبیتا اور اس کے خواب ! جو بے چینی سے اپنے میٹرک کے رزلٹ کا انتظار کر رہی تھی کہ فوراً جے پی ایم سی کے نرسنگ کالج میں داخلہ لے لے گی،نرس بنے گی۔
اللہ تعالیٰ نے انجلیناکی مشکل کلثوم باجی کے ذریعے آسان کروائی ، اور انہوں نے زینت کوپیماکے آنکھوں کے اسپتال پی او بی کلینک میں ا پنے بھانجے ڈاکٹر مصباح العزیز کے پاس بھیج دیا جہاں بلا تخصیص مذہب مستحق مریضوں کامفت دوا، علاج اور آپریشن کیے جاتے ہیں۔
وہ بھی بہت سی امیدیں لے کر یہاں تک پہنچی تھی ۔ڈاکٹروں نے دیکھا تھا اورآج سبیتا اندر آپریشن تھیٹر میں تھی ۔ ڈاکٹرنے امید تو دلائی تھی کہ بینائی بچ جائے گی ۔اور کلینک کی انتظار گاہ میں بیٹھناا نجلیناکی آنکھیں بار بار نم ہو جاتی تھیں،وہ پریشان تھی اور اس کادل بیٹھا جا رہا تھا۔
وہ اپنی پریشانی میں الجھی ہوئی تھی کہ سامنے والی کرسی سے اٹھ کر حلیمہ بی بی انجلینا کے پاس آ بیٹھیں۔ ادھڑ عمر حلیمہ بی بی نے اپنے خاص بلوچی لہجے میں اس سے پوچھا"اے بہن! رو کیوں رہی ہو ؟ لو پانی پیو"۔ زینت نے آنسو پونچھے اور دھندلی اور اداس آنکھوں سے دوسری طرف دیکھنے لگیں۔
"بیٹی آپریشن تھیٹر میں ہے کیا ؟ اچھا ! پریشا ن نہ ہو" حلیمہ بی بی نے گزرتے ڈاکٹر کو سلام کیا اور پھر انجلینا سے سوال کر ڈالا کہ کیا کچھ پریشانی کی بات کہی ہے ڈاکٹرنے؟
انجلینا بتانے لگی کہ " پریشانی ، ہاں فکر کی تو بات یہ ہے کہ میری بیٹی اب دیکھ بھی پائے گی کہ نہیں" ۔
حلیمہ بی بی سے انجلینا کی مایوسی بھری باتیں سنی نہیں گئیں۔ فوراً ہی اسے اپنی آنکھ دکھائی کہ دیکھو، میری اس آنکھ کا آپریشن بھی یہیں ہوا ہے ۔ پریشان مت ہو۔تمہاری بیٹی ٹھیک ہو جائے گی۔
حلیمہ بی بی نے اسٹاف کو مسکراتے ہوئے سلام کیا اورانجلینا کو بتانے لگیں کہ اچھااسپتال ہے۔وہ بہت عرصے سے یہاں آرہی ہے ۔ پہلے ساس کے ساتھ پھر خود اور ابھی تو اپنے میاں کے ساتھ آئی ہے ۔ وہ دیکھو ، وہ بیٹھا ہے میرا گھر والا ۔ جالا آگیا ہے اس کی آنکھ میں ۔ رکشہ چلاتا ہے نا۔
بہن ! پریشان نہیں ہو دعا کرو اور دعا دو ۔ ان لوگوں کو، جن کی بدولت ہم جیسے لوگ بھی نا بینا ہونے سے بچ جاتے ہیں ۔ ہاں صحیح کہا خداوند بھلا کرے ان لوگوں کا ، ہم جیسے لوگوں کا بھی مفت آپریشن کرتے ہیں جو سرکاری اسپتالوں میں بھی آنکھوں کا آپریشن کرانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ یہ ہم سے سوائے دعائوں کے کچھ نہیں لیتے۔