بلاگ
10 اگست ، 2017

رنگ بدلے ،انداز بدلے ،جینے کی ادا بدلی !

رنگ بدلے ،انداز بدلے ،جینے کی ادا بدلی !

بچپن چاہے آپ کا ہو یا میرا ،سب کو عمر کایہ حصہ سہانا لگتا ہے ۔ اپنے بچپن کی کوئی بھی رنگین یا بلیک اینڈ وائٹ تصویر اٹھا کر دیکھ لیں ہزار ہا یادیں آج بھی اس سے وابستہ نظر آئیں گی ۔

ہم دن کے کسی نہ کسی پہر،اپنی بند مٹھی کھول کر ان دلکش اور دلفریب یادوں میں کھو جاتے ہیں ۔ چاہے وہ بچپن کی عید ہو یا عیدی ، نئے کپڑے اور جوتوں کو بار بار دیکھنے کی آرزو ہو یا قربانی کے جانور کا خیال۔ روزہ کشائی کی انوکھی خوشی ہو یا دوستوں کو عید کارڈ دینے کی بھولی بسری تصویریں۔

میرے بچپن کی پٹاری میں تو رنگ رنگ کے چہرے ہیں ۔ جیسے ہمارے پڑوس میں کئی’ چچا‘ بستے تھے تو کئی’ تائے‘ بھی تھے۔ کوئی ’پھوپھی جان‘ تھیںتو کوئی ’خالہ جان‘۔ غرض کہ آپ کو سگے رشتوں کا انتظار نہیں کرنا پڑتاتھا بلکہ نانی ، نانااور دادا جیسے رشتے محلے میں ہی مل جاتے۔

دادا کا گرم گرم مونگ پھلیوں کا تھیلا گھر تک آجانا اور جنید بھائی کا سب بچوں کو چیز دلا دنا ۔ کامیاب ہونے پر معلومات افزا کتاب کا تحفہ۔ ۔اور میٹرک میں کامیاب ہونے پر’’پارکر ‘‘یا ’’ہیرو "کا پین یا گھڑی بڑے انعام سمجھنا ہی اس زمانے کا حسن تھا۔

دوپہر میں سونے کا سوال ہی نہیں تھا ،چمکتی دھوپ میں سڑکوں پرکھیلنے سے لے کر ، چھت پر چڑھنے ، کیریاں توڑنے تک، نانی کے گھر سے کچے پکے فالسے ، تازہ جامنوں کی چاشنی یا آم کے درخت کی چھائوں ! یہ سب ہمارے لئے پی ٹی وی کے بلیک اینڈ وائٹ زمانے کی یادوں کی طرح ہمیشہ رنگین رہیں گے۔

آج کل سوچتی ہوں کہ کیسا سادہ زمانہ تھا ۔ ہر رشتہ بے غرض ،سادہ اور بناوٹ سے پاک۔ جن کے کھانے اور لباس ہی سادہ نہ تھے بلکہ پوری طرز زندگی ہی سادہ تھی۔خود بتائیں ، جب کوئی آپ کی پھوپھو کو مرنے کے برسوں بعد بھی ان کی اچھائی پر یاد کرئے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ وہ زمانہ ہی بڑے دل اور دماغ والے لوگوں کا تھا۔

اخبار، کتابیں اور رسالے پڑھنا صاحب علم ہونے کی بنیادی اکائی تھی۔ ہمارے ہاکر جن کا نام تو اب یاد نہیں لیکن پورے محلے میں" جنگ صاحب" کے نام سے جانے جاتے ۔جنگ، نونہال اور اردو ڈائجسٹ گھر میں آتے تھے ۔ ہم بہن بھائی " جنگ صاحب " سے اشتیاق احمد کے ناول اوربچوںکے رسالے لیتے اور ایک ہی دن میں پورا پڑھ کر ایسے ہی واپس کر دیتے ۔ اور وہ ہم سے پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔شرط بس یہ ہی کہ خراب نہ ہوں۔آج سوچ رہی تھی کہ جانے کتنوں نے جنگ صاحب کے طفیل کیا کچھ پڑھ ڈالاہوگا۔

ہمارے والد تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے تو پورے محلے کے استاد تھے ۔ جس کو جو سمجھنا ہوتا کتاب لے کر ابا تک پہنچ جاتا۔ فیس ویس کا کوئی سوال نہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب تھے۔ کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑتا تو پوری گلی کے بچوں کو دواپلا رہے ہوتے ۔ یعنی سب ہی ایک دوسرے کی فلاح کا سوچتے۔

ایک کی خوشی ، سب کی خوشی تھی۔محلے میں کسی لڑکی کی شادی ہے ۔ خواتین جوڑے ٹکائی اور جہیز کے لوازمات میں مشغول ہیں تو حضرات میں سے کوئی کھویا اٹھا لاتا توکوئی گوشت۔ کسی نے اپنے بیٹے کے ولیمے میں کھانا اچھا پکوایا تھا تو اب اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں بھی ہاتھ بٹائے۔

یہ سب بہت مٹے مٹے سے نقوش ہیں لیکن اپنے بڑوں کا یہ سب کرنا یاد ہے ۔ ہم بچے بھی ان شادیوں میں تین ، چار ہفتے پہلے سے گانوں کی تیاریاں ، مہندیوں کے تھال سجانے اور مہندی لگانے میں لگ جاتے ۔آج کل کی شادیوں کی طرح فلمی گانے نہیں بلکہ باقاعدہ روایتی شادی کے گانے ۔

خواتین کے پاس دو تین رنگین لباسوں ،تین سفید شلواروں اور پانچ قمیصوں کو ادل بدل کرپہن لینا معیوب نہیں بلکہ سلیقہ سمجھاجاتا۔ آس پاس کے رشتے داروں کی آمد کو آج کل کی طرح ’مہمان بلائے جان‘ بلکہ برکت سمجھاجاتا ۔ جو پکا ہوتا، خوش ہو کر دستر خوان وسیع کر لیا جاتا۔ اور کوئی خاص مہمان آگیا تو پڑوس سے مدد لے لی جاتی۔آپ کا مہمان سب کا مہمان۔

موسم کے تازہ پھل، سبزیاں دسترخوان کی زینت بنتیں ۔ باسی کھانے کا رواج نہ تھا کیونکہ فریج ہر گھر کی بنیادی ضرورت نہ بنا تھا۔ بازاری کھانے، بازاری اور نو دولتیوں کی پہچان سمجھے جاتے ۔کھانوں کو نعمت خانوں اور لٹکتے چھیکوں کے ذریعے اگلے وقت کے کھانے تک محفوظ کر لیا جاتا۔

طرح طرح کے اچاراور چٹنیوں سے سادہ طہری ، دال روٹی اورکھچڑی کو مزید ذائقہ دار بنالیتے۔ مجھے تو نانی کے ہاتھ کا گاجر کا مربہ بھلائے نہیں بھولتا ۔طرح طرح کے روغن و مرغوب قورمے ،بریانیاں اور پلائو عموماً کم اور کسی نوبیاہتا جوڑے کی دعوت یا ہندوستان سے آئے عزیز وںکے اعزاز میں زیادہ پکتے ۔

اس وقت نہ کوئی ڈر تھا نہ ہی کوئی خوف ۔گھنٹوں بجلی جانے کا دستور نہیں تھا لہٰذا اگرکبھی چلی جاتی تو گلی ہمارا آنگن بن جاتی ۔کچھ کرسیاں ڈال کر باہر بیٹھ جاتے تو بعض چبوتروں پرسدھارلیتے۔ مونسری اور جامن کے درختوں کی ٹھنڈی ہوائیں یاد آتی ہیں۔

آج یہ سب اس لئے یاد آیا کہ ہم سب اپنے سادہ وقتوں کو یادکرتے کرتے آج کے زمانے کی نفسا نفسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر خودکچھ کرنا نہیں چاہتے۔ دوسروں سے تو قع کرتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر پڑوس کی خبر گیری نہیں کرتے کہ ہمارے پاس وقت ہی کہاں!

اورآپ اپنے بچوں کو کیسا بچپن دے رہے ہیں ؟ وہ کھیلتے کیا ہیں ،سوائے موبائل گیم کے؟ وہ دیکھتے کیا ہیں،ٹی وی اور یو ٹیوب پر چلنے والے کارٹون کے علاوہ۔کھاتے کیا ہیں ، جنک فوڈ۔اور ایک بچپن آپ کا اور میرا تھا۔

آج کے بچے کو اتنی چیزیں میسر ہیں پھر بھی وہ اپنے بڑوں سے اتنا نالاں کیوں ہیں؟ جبکہ آپ اپنے والدین اور بچپن سے مطمئن اور خوش تھے ۔ ہم آج بھی ویسی ہی پرسکون زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ۔ پھر کچھ کرتے کیوں نہیں !