پاکستان
Time 02 اکتوبر ، 2017

احتساب عدالت میں وزراء کا داخلہ بند، رینجرز کی تعیناتی بھی معمہ بن گئی

اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز نے آج وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت دیگر وزرا کو بھی جانے نہ دیا جب کہ احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کا معاملہ ہی معمہ بن گیا۔

آج احتساب عدالت میں نواز شریف ی کی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے اور پولیس کے بجائے رینجرز نے سیکیورٹی کی ذمہ داریاں اپنے ہاتھ میں لیں۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال سمیت کابینہ کے متعدد ارکان احتساب عدالت پہنچے لیکن انہیں رینجرز نے احاطہ عدالت میں ہی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔

رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید

احسن اقبال کے علاوہ  سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفرالحق، وزیر مملکت طارق فضل چوہدری، دانیال عزیز اور طلال چوہدری کو احتساب عدالت کے دروازے پر ہی روک لیا گیا۔

رینجرز اہلکاروں نے رکن قومی اسمبلی مائزہ حمید، میئر اسلام آباد شیخ انصر عزیز اور سابق وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کو بھی احتساب عدالت کے اندر داخلے کی اجازت نہ دی۔ 

وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق احتساب عدالت پہنچے تو انہیں بھی اہلکاروں نے احتساب عدالت کے دروازے پر روک لیا جس پر انہوں نے اندر جانے کی کوشش نہیں کی اور واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔

دوسری جانب ایس ایس پی اسلام آباد نے تسلیم کیا ہے کہ رینجرز بلانے کی درخواست کی گئی تھی تاہم ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ایک اعلامیے میں کہا کہ اس درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی رینجرز کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے گئے۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو داخلے سے روکے جانے پر انہوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور رینجرز کے بریگیڈئیر کو طلب کیا تاہم اس موقع پر وہ احتساب عدالت کے دروازے پر ہی کھڑے رہے۔

وفاقی وزیر داخلہ کے احکامات کے باوجود رینجرز کے بریگیڈئیر پیش نہ ہوئے تو احسن اقبال نے پہلے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کو خوب جھاڑ پلائی۔

اس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ رینجرز سول ایڈمنسٹریشن کے ماتحت کام کرنے کی پابندی ہے اور یہ صورتحال قابل قبول نہیں، جس نے یہ کام کیا ہے اس کے خلاف انضباطی کارروائی ہوگی۔

وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ رینجرز کے مقامی کمانڈر کو بلایا تو وہ روپوش ہوگئے، یہ نہیں ہوسکتا کہ میرے ماتحت ادارے کسی اور جگہ سے حکم لیں، ایک ریاست کے اندر دو ریاستیں نہیں ہوسکتیں۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سول ایڈمنسٹریشن کے احکامات کی حکم عدولی کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہوگی، میں اس صورت حال کا نوٹس لیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اگر کوئی نتیجہ نہ نکلا تو عہدے سے استعفیٰ دے دوں گا۔

دوسری جانب احتساب عدالت کے باہر رینجرز کی تعیناتی کس کے حکم پر ہوئی یہ معاملہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔

جیونیوز نے رینجرز کی تعیناتی کے لیے لکھا گیا خط حاصل کرلیا جو ایس ایس پی اسلام آباد کی جانب سے لکھا گیا۔

ایس ایس پی اسلام آباد نے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ضلعی مجسٹریٹ کے نام خط میں لکھا کہ 2 تاریخ کو ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے رینجرز کی تعیناتی درکار ہے۔

خط میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر تعیناتی کا کہا گیا اور رینجرز کی تعیناتی جوڈیشل کمپلیکس جی 11 کے لیے مانگی گئی۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ ڈپٹی کمشنر نے ایس ایس پی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا اور رینجرز کی تعینات کی اجازت نہیں دی تھی۔ 

ڈی سی آفس کے ذرائع کے مطابق ایس ایس پی کے خط پر مزید کارروائی نہیں کی گئی اور کہا گیا کہ عدالت کے باہر پولیس اور ایف سی کی نفری تعینات کی جائے۔

ذرائع کا بتانا ہےکہ جوڈیشل کمپلیکس میں رینجرز طلب کرنے کا فیصلہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا تھا۔

علاوہ ازیں وزیر داخلہ کو جوڈیشل کمپلیکس میں روکنے کے معاملے پر سیکریٹری داخلہ نے ضلعی انتظامیہ سے تحریری فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ طلب کرلی ہے اور سیکریٹری داخلہ کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کردی ہے۔

مزید خبریں :