بلاگ
Time 03 اکتوبر ، 2017

پاکستان ہاکی بھی اپنے نجم سیٹھی کی تلاش میں ہے !

ہمارے ہاں کرکٹ کا جنون ہی نہیں بلکہ یہ شائقین کا اوڑھنا بچھونا ہے، بچہ ہو یا بڑا یہاں تک بزرگوں کے درمیان بھی موضوع سخن کرکٹ ہی رہتا ہے۔

ابو ظہبی میں پاکستان سری لنکا سے پہلے ٹیسٹ میچ میں ہار تو گیا ہے یکن ہمیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ ہم ابھی تک لاہورکے آزادی کپ میں پاکستان کی کامیابی کے نشے میں ہیں۔

خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں پورے 8سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوئی ہے، خیر حالیہ میچز بھی دبئی میں ہو رہے ہیں،گو ابھی آئی سی سی نے پاکستان میں میچ کرانے کی ہامی نہیں بھری لیکن امید ہو چلی ہے کہ ڈیوڈ رچرڈسن بھی غور کریں گے کہ سیکیورٹی مسائل کبھی بھی اور کہیں بھی ہو سکتے ہیں۔

قابل تعریف ہیں پاکستان کرکٹ بورڈ اور نجم سیٹھی جنہوں نے پاکستان کرکٹ کو دنیا کے سامنے پھر سے کھڑا کر کے ہی دم لیا ۔

یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ کرکٹ بورڈ کو چلانے کے کے لیے سابق کرکٹر ہونے سے زیادہ اہلیت ہونا شرط ہے اور ان کرکٹ کے ٹھیکے داروں کو بھی پیغام گیا کہ جو سمجھ رہے تھے وہ پاکستان کرکٹ اور کھلاڑیوں کو دیوار سے لگادیں گے، وہ لوگ سن لیں کہ پاکستان کے پاس کرکٹ کا شاندار ما ضی بھی ہےاور تابناک حال اور مسقبل بھی ۔

یقیناً یہ سب باتیں خوش آئند ہیں لیکن میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے کہ کیا ہاکی پاکستان کا سوتیلا بچہ ہے یا پھرلے پالک؟ جو ہم نے اپنی ہاکی ٹیم کو اسٹور کے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے، کھیل تو سب ہی برابر ہیں، پھر کیوں بس کرکٹ ہی کرکٹ ہوتا ہے،ستمبر میں آزادی کپ کے انعقاد نے ہمارے قومی وقار میں اضافہ کیا ۔

پاکستان کے قومی کھیل کو چلانے کے لیے بھی ایک فیڈریشن ہے لیکن اب تک یہ ادارہ ہاکی کے فروغ کے لیے کیا کرتا رہا ہے؟ افسوس ہوتا ہے جب حکومت اورہاکی فیڈریشن کی توجہ کھیل اور کھیلاڑیوں کے علاوہ ہر جگہ نظر آتی ہے۔

کبھی دل دہلانے کے لئے ایسی خبریں آتیں ہیں کہ بھارتی ہاکی بورڈ نے پاکستانی ہاکی کو مالی مدد فراہم کرنے کی آفر کی ہے،تو کبھی غریب ہاکی کے کھلاڑیوں کو ڈیلی الاؤنس تک نہیں ملتا، فنڈز کم ہیں تو حکومت سے مانگیں جائیں، سوال کیا جائے،لگتا ہے کہ پاکستان ہاکی کے ساتھ ’نامعلوم افراد‘ والا سلوک کیا جا رہا ہے،جن کی کسی کو کچھ خبر نہیں۔

آزادی کپ کے کامیاب انعقاد میںجہاں پاکستان کرکٹ بورڈ کی حکمت عملی تھی، وہیں اسپانسر شپ کے کمالات کوبھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،ہم تو مانتے ہیں کہ کرکٹ کے کھیل میں رنگینی،پیسہ اورکمرشل ازم ملٹی ننشنل کمپنیوں کے دم سے آیا ہے، یہ اچھی بات ہے، لیکن ہاکی کے شائقین بھی ان ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کہتی ہیں کہ ان جیسے ادارے غریب ہاکی کو نہ بھولیں، یہ ادارے ہمارے قومی کھیل کوبھی زمین سے آسمان تک پہنچا سکتے ہیں، ہمارے ہاکی کے کھلاڑی بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکتے ہیں۔

آخر شائقین ہاکی اپنے کھیل سے اتنے مایوس کیوں ہیں؟ کیاہماری ہاکی کا شاندارماضی نہیں رہا؟ کیا نور خان کے زمانے کی ہاکی زہینوں سے نکل گئی، کیا ہمارے گیندیں سمیع اللہ سے کلیم اللہ اور حسن سردار کی ہاکی سے ہوتی ہوئی گول میں نہیں جاتی رہیں؟ کیا شہباز کے پیلنٹی اسٹروک بھولے جاچکے ہیں، وسیم فیروز، حنیف خان سے لے کر سہیل عباس تک ہاکی میں کیا کوئی ہیرو نہیں رہا؟

ہاکی کے زوال کی کئی وجوہات ہوںگی، لیکن سب سے بڑی وجہ تو یہ ہی ہے کہ ہاکی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں، اکیڈمیز ہی نہیں، کھیل کے میدان ہی ختم کر دیئے گئے، اب نہ گلیوں میں ہاکی کھیلی جاتی ہے نہ ہی اسکولوں میں،یہ بات سولہ آنے درست ہے کہ اسکولوں اور قومی سطح کی اکیڈمیوں کے کردار کے بغیر ہماری گرین شرٹ کی کار کردگی بڑھائی نہیں جا سکتی، رونا تو یہ ہے کہ صرف چند اسکول ہی رہ گئے ہیں جہاں ہاکی گراؤنڈ موجود ہیں، اسی لئے ا یم سی ہائی اسکول، ناصرہ اور حبیب بوائز اسکول ـ سے ہی لڑکے نکل کر قومی ٹیم کا حصہ بنتے ہیں اور خود ہاکی فیڈریشن کھیل کا ادارہ کم اور سیاسی اکھاڑا زیادہ لگتا ہے۔

ہمیں امید ہے کہ اگر ہاکی کو بھی نجم سیٹھی جیسا سربراہ مل جائے تو کم از کم ہماری ٹیم ہاکی ورلڈ کپ کے کوالیفائنگ راؤنڈ سے باہر نہ جائے،حالیہ ہاکی ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے میچزپر ہم آنسو بہا کر سو نہیں سکتے کہ ہماری ٹیم چار میں سے تین میچ ہار بیٹھی، مزید یہ کہ پاکستان چھ گول سے ہار گیا وہ بھی کینیڈا جیسی ٹیم سےاور جیتا بھی کس سے اسکاٹ لینڈ سے!

آج ہمارے پاس اولمپکس سے لر کر اذلان شاہ تک کوئی ہاکی کاٹائٹل نہیں، ہر سطح پرہمارا مقابلہ کسی سے ہو نہ ہو بھارت سے ضرور ہوتا ہے، ذرا اپنا خون گرمائیں کہ ورلڈ رینکنگ ہم چودہویں نمبر پر تو بھارت چھٹے نمبر پر ہے۔

چلیں مانتے ہیں کہ کمی اور دشواری ہر جگہ ہے، اگر آج بھی ہاکی کے پاسنجم سیٹھی جیسا سربراہ ہوتا تو بہتری آسکتی ہے، تھوڑی سی توجہ سے، تھوڑے سے عزم سے لیکن لگتا ہے کہ خود ہاکی فیڈریشن نے ہاکی کو بستر مرگ پر چھوڑااور کفن دفن کے لے نکل پڑے۔

زرا رکیں! ہمارا قومی کھیل لب دم ضرور ہے لیکن جان باقی ہے، جان باقی تو جہاں باقی کی مثل،آئیں میڈیا، اسپانسر اور فیڈریشن مل کر ہاکی کو پھر سے اٹھ کھڑا ہونے میں مدددیں، یقین رکھیں ہاکی کے کھلاڑی بھی جادو دیکھا سکتے ہیں۔



جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔