بلاگ
Time 15 فروری ، 2018

عاصمہ جہانگیر کے مخالفین کو جواب

عاصمہ جہانگیر کا انتقال رواں ماہ 11 فروری کو لاہور میں ہوا—۔فائل فوٹو

دل بہت غمگین ہے اور پریشان بھی۔ صرف اس لیے نہیں کہ میرے اور مجھ جیسے بے شمار پاکستانیوں کی محسن اس دُنیا میں نہیں رہیں بلکہ اصل دُکھ اور پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر کی موت پر بھی اُن کے بارے میں تنقید کرنے والوں نے ایک طوفان بدتمیزی مچا رکھا ہے۔

اگرچہ مخلص، سچے اور کھرے لوگ اُن کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے لیے کلمۂ خیر کہہ رہے ہیں، لیکن تنقید کرنے والے ہیں کہ عاصمہ کی موت پر پہلے سے دُکھی اور غمزدہ پاکستانیوں کے زخمی دلوں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو مادر پدر آزادی نے انھیں کچھ زیادہ ہی بے باک بنا دیا ہے۔ میری اُن سب سے گزارش ہے کہ کم از کم اس موقع پر تنقید کرنے اور سخت جملے کہنے سے تو باز رہیں اور اپنے مذہب کا نہیں تو اپنی مشرقی روایات کا ہی پاس کر لیں کہ دشمن کی موت پر بھی خوشی نہیں منانی چاہیے جبکہ وہ تو تھیں ہی انسانیت کی ہمدرد اور اُن کے حقوق کے لیے سب سے زیادہ آواز بلند کرنے والی خاتون۔

فی الوقت ہم عاصمہ کی موت سے ہونے والے نقصان کا اندازہ نہیں کر پا رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں احساس ہوگا کہ اُن کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا کتنا بڑا ہے جسے مدتوں پورا نہ کیا جا سکے گا۔ ان کی اچانک موت سے پاکستان کے اندر جمہوریت پسند، انسانی حقوق اور آزادئ صحافت پر یقین رکھنے والی قوتوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

یوں تو ان کی خدمات زندگی کے تقریباً سبھی شعبوں میں بے مثال ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے ان کی خدمات کا کوئی ثانی نہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے پاکستان میں اس بات کا تعارف کروایا کہ انسانی حقوق ہوتے کیا ہیں۔ اُنھوں نے مجبوروں، کمزوروں اور بچوں کے لیے آواز بلند کی۔ عورتوں کے حقوق کے لیے تو وہ غاصبوں سے پوری طرح بھڑ ہی گئی تھیں۔ اقلیتوں، مزدوروں اور صحافیوں کے حقوق کے لیے اُن کی آواز سب سے دبنگ تھی۔ اُن کا شمار اُن خواتین میں ہوتا تھا جو انسانی و شہری حقوق کے ساتھ ساتھ سیکولر، لبرل اور جمہوری پاکستان کی نقیب تھیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر کڑی تنقید کرنے والوں کے حق کے لیے بھی آواز اُٹھاتی تھیں جب وہ خود مشکل میں پھنس جاتے تھے۔

اُن کے احسانات کو کہاں کہاں تک یاد کیا جائے۔ ویج ایوارڈ کی جدوجہد کے دوران انہوں نے میڈیا کارکنوں کی بار بار مدد کی۔ میڈیا خاص طور پر اُن کا مقروض ہے کہ اسے بات کرنے کی آزادی عاصمہ کی بدولت ہی ملی ہے۔ بلوچوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر وہ ڈٹ کر بولتی تھیں۔ اُن کی آخری عوامی تقریر بھی غالباً بلوچوں کے حقوق کے حوالے سے ہی ہے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر انہوں نے سوات جاکر بڑی جرات کے ساتھ اس مسئلے کو اجاگر کیا تھا۔ جس کسی کو ریاست تحفظ نہیں دے سکتی تھی اسے عاصمہ جہانگیر تحفظ دلوایا کرتی تھیں۔ حق اور سچ بات کے لیے آواز بلند کرنے میں وہ کبھی گھبراہٹ یا اکیلاپن محسوس نہ کرتی تھیں۔ بلکہ اُس صورت میں بھی وہ تنِ تنہا ڈٹ جاتیں جب کہ دوسرے مصلحتوں کا شکار ہو کر کمپرومائز کے لیے آمادہ ہو جاتے۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ اُنھوں نے اتنی قوت، طاقت اور ہمت کہاں سے حاصل کی۔ دراصل اُن کی تربیت تو لڑکپن میں اُسی وقت ہی ہوگئی تھی جب ڈکٹیٹر جنرل یحییٰ خان نے اُن کے والد کو گرفتار کیا اور اُنھیں سب سے پہلی باقاعدہ جنگ اپنے والد کے حق کے لیے لڑنا پڑی۔ اس تربیت نے انھیں ہمت و حوصلہ دیا کہ جب وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے حق کے لیے جدوجہد کر کے کامیاب ہو سکتی ہیں تو دوسرے مظلوموں کو بھی اُن کا حق دلوا کر رہیں گی جو خود اپنا حق چھین لینے سے قاصر ہیں۔

لیکن عاصمہ کا حق داروں کی آواز بن کر للکارنا، غاصبوں اور ظالموں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عاصمہ کے خلاف بہت زہریلا پروپیگنڈا کیا۔ مظلوموں اور مجبوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے کے ’جرم‘ میں اس عظیم عورت کو ہر وہ گالی دی جو وہ دے سکتے تھے۔ کبھی اُنھیں غدارِ وطن اور اسلام دشمن کہا گیا، کبھی ان پر بھارت اور امریکا کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا اور کبھی انسانی حقوق کے نام پر ملک دشمن ممالک سے فنڈز لینے کی تہمت ان پر لگائی گئی۔ مگر حیرت ہے کہ عاصمہ پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا الزام لگانے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ کشمیری عوام کے حقوق کی آوازوں میں بلند آواز عاصمہ ہی کی تھی۔ جب مخالفین کو اس محاذ پر خاطرخواہ کامیابی نصیب نہ ہوئی تو اُن کے قادیانی ہونے کا سوشہ بھی چھوڑا گیا۔

سلام ہے اس بہادر عورت کی جرأت کو کہ مخالفین سے مفاد پرست، بھارت کی ایجنٹ اور اسلام دشمنی کے طعنے سننے کے باوجود وہ اپنے مشن پر ڈٹی رہیں۔ اُدھر وہ تواتر سے عاصمہ جہانگیر کے خلاف زہر اگلتے رہے تھے اور اِدھر یہ زوال پذیر معاشرے کی اصلاح کی جدوجہد میں ہمہ تن جتی رہیں۔ وہ سچ اور جھوٹ کی لڑائی اُن کی پوری زندگی میں چلتی رہی۔ لیکن اب جبکہ عاصمہ کا معاملہ رب کی بارگاہ میں پیش ہو چکا ہے، کیچڑ اچھالنے کے عادی لوگ اس وقت بھی مرحومہ کو معاف کرنے یا ان سے درگزر کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ہے کہ دشنام طرازی اور بدزبانی کے اس سلسلے کو میری درخواست پر بند کر دیا جائے گا۔ تو پھر ہم کیا کریں؟ جی ہاں ہمیں گالی کا جواب گالی سے بالکل نہیں دینا چاہیے بلکہ ہمیں ایسے کام کرنے چاہئیں کہ ایک عاصمہ کے چلے جانے کے بعد ہمیں ہزاروں لاکھوں عاصمائیں مل جائیں۔

میں درخواست کروں گا کہ انھیں سرکاری اعزاز سے نوازا جائے اور زندگی کے ہر شعبے میں جہاں جہاں اُن کی خدمات ہیں، یادگاریں بنا دی جائیں۔ جیسے قانون کی تعلیم کے اداروں میں عاصمہ چیئر بلکہ شعبۂ عاصمہ بنا دیا جائے۔ عدل کے ایوانوں میں اُن کے نام پر چیمبرز تعمیر کر دیئے جائیں۔ انسانی حقوق کے نام پر تنظیمیں اُن کا نام علامت کے طور پر استعمال کریں وغیرہ۔ مطلب یہ کہ دشنام طرازوں کو اُسی طرح جواب دیا جائے جس طرح عاصمہ جہانگیر اپنے مشن پر عمل پیرا ہو کر دیا کرتی تھیں۔

حسن نقوی بطور پروڈیوسر ایک نجی ٹی وی کے ساتھ منسلک ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔