29 مارچ ، 2018
بلوچستان کی سیاست میں کب کیا ہو جائے،کوئی نہیں جانتا!
مسائل کی چکی میں پسی عوام تو بالکل نہیں۔ بظاہر سیاست اور اقتدار سب معمول کے مطابق چل رہا ہوتا ہے اور پھر اچانک دنوں بلکہ گھنٹوں میں سیاسی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔کسی کے اقتدار کا تختہ الٹ جاتا ہے اور کوئی بظاہر 'ہیرو سے زیرو' اور کوئی 'زیرو سے ہیرو' بن جاتا ہے۔
یکم جنوری سے قبل تک سب کچھ بظاہر ٹھیک دکھائی دے رہا تھا، نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ تھے، صوبائی حکومت کی کمان ان کے ہاتھ میں تھی، پھر اچانک ان کےخلاف چودہ اراکین اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک لے آئے۔
عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے پہلے ان کی اپنی ہی کابینہ کے اراکین مستعفی ہونا شروع ہوئے اور پھر ٹھیک عدم اعتماد کے روز یعنی 9 جنوری کو انہیں 'نوشتہ دیوار' سامنے لکھا دیکھ کر وزارت اعلیٰ سے استعفی دیناپڑا اور پھر صوبے کی سیاست بلکہ اقتدار کے منظر نے 4 روز بعد یعنی 13 جنوری کو ایوان میں ایک اقلیتی یعنی اراکین کے حوالے سے کم تعداد کی حامل جماعت مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی کو 41 کی حمایت سے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز دیکھا۔
ان کے مخالف پشتونخواہ میپ سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی آغا لیاقت کو محض 13 ووٹ ملے، اس کے بعد صوبائی حکومت کا منظرنامہ تبدیل ہوگیا۔ جو اقتدار میں تھے وہ حزب اختلاف میں آگئے اور جو بظاہر کچھ نہیں تھے وہ برسرقتدار ہوگئے۔
اب یہ وافقان حال ہی بہتر بتاسکتے ہیں کہ شاید جو کچھ ہوا، اس کے پس منظر میں اس حوالے سے کچھڑی پہلے سے ہی پک رہی ہو، بہرحال یہی صوبے کی سیاست کے عجب رنگ ڈھنگ ہیں۔
اس طرح بلوچستان اسمبلی ملک کی واحد صوبائی اسمبلی ہے جہاں اپوزیشن اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔
اس حوالے سے ماضی کی داستانوں سے قطع نظر اگر حال کو ہی دیکھا جائے تو رواں سال کے آغاز میں ہونے والے واقعات کے آفٹر شاکس یعنی جھٹکے اب تک محسوس کیے جا رہے ہیں۔ صوبے کی سیاست کے واقف حال سیاسی پنڈت ان جھٹکوں کے آئندہ الیکشن تک جاری رہنے کا امکان ظاہر کر رہے ہیں۔ اس کا ایک مظاہرہ تو بلوچستان سے سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر بھی دیکھنے میں آچکا ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جگہ 6 آزاد امیدواروں نے سینیٹ کا میدان مار لیا تھا اور اکثریتی جماعت مسلم لیگ (ن) کا حمایت یافتہ کوئی بھی امیدوار کامیاب نہ ہوسکا تھا۔
ایسے میں صوبے کے سیاسی افق پر ایک نئی سیاسی جماعت کا طلوع بھی ہوچکا ہے۔ یہ تو سب بلوچستان کی سیاست کے رنگ ڈھنگ ہیں، جو کہ بہرحال نرالے ہیں اور اب ان میں ایک نیا عجب رنگ یہ نظر آیا کہ بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی بنچوں پر براجمان اراکین اسمبلی کی تعداد حزب اقتدار کے اراکین کی نسبت زیادہ ہوگئی ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق اس وقت بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی تعداد 35 بن رہی ہے، یعنی ایوان میں 64 میں سے 35 کا تعلق حزب اختلاف سے ہے جبکہ اسمبلی میں حکومتی بنچوں پر براجمان اراکین کی تعداد 25 بنتی ہے۔
اس طرح بلوچستان اسمبلی ملک کی واحد صوبائی اسمبلی ہے جہاں اپوزیشن اراکین کی تعداد زیادہ ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں میں پشتونخواہ میپ، نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور بی این پی عوامی شامل ہیں۔
اگر اعدادوشمار کو دیکھاجائے تو پشتونخواہ میپ کے اراکین کی تعداد 13، نیشنل پارٹی کے اراکین کی تعداد 10 ہے جبکہ جے یو آئی (ف) کے اراکین کی تعداد 8 ہے۔ اسی طرح بی این پی مینگل کے دو اور بی این پی عوامی اور اے این پی کے ایک،ایک رکن کاتعلق بھی حزب اختلاف سے ہے۔
اب حزب اختلاف میں عددی اعتبار سے اکثریت کی حامل پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کے چند اراکین موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں
یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پی کے میپ اور نیشنل پارٹی کے ماسواء تقریباً تمام جماعتوں بشمول حزب اختلاف میں شامل جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین میں سے بیشتر نے اس وقت کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حمایت کے علاوہ 13 جنوری کو نئے قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر بھی موجودہ وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو کےحق میں ووٹ دیا تھا۔
اب ایک دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ بلوچستان اسمبلی میں 23 کی اکثریت سے پشتونخواہ میپ کے عبدالرحیم زیارتوال جے یو آئی کے مولاناعبدالواسع کی جگہ قائد حزب اختلاف مقرر ہوچکے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ عبدالرحیم زیارتوال کی تقرری کےخلاف ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی ہے۔
مولانا عبدالواسع اور جمعیت کے دیگر اراکین نے موجودہ وزیراعلیٰ میرعبدالقدوس بزنجو کی بھرپور حمایت کی تھی، تاہم انہوں نے ان کی حکومت کاحصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے بلوچستان اسمبلی کے ایوان میں حزب اختلاف میں ہی رہنے کافیصلہ کیا تھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اب حزب اختلاف میں عددی اعتبار سے اکثریت کی حامل پشتونخواہ میپ اور نیشنل پارٹی کے چند اراکین موجودہ وزیراعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ میرعبدالقدوس بزنجو اقتدار میں ہوتے ہوئے اقلیت میں ہیں۔
بلوچستان کی الگ انداز کی سیاست میں اب آگے کیا ہوتا ہے؟ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔۔۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔