14 اپریل ، 2018
کیا آپ اب بھی فیس بک ، ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسی چمٹنے والی بلاؤں سے دور ہیں؟ کیا آپ میں جذبات ہیں دوسروں کیلئے ’درد‘ ہے یا آپ ’پریکٹیکل‘ ہیں؟ کیا آپ کبھی کسی ’اپنے‘ کی تیمارداری کیلئے اسپتال میں ٹہرے ہیں؟ کیا آپ اسپتال کے ویٹنگ ایریا میں سوئے ہیں یا باہر بینچ پر رات گزاری ہے؟ کیا اپنے پیسے بچانے کیلئے اسپتال سے باہر جا کر کھانا کھایا ہے؟ کیا آپ کو کسی سے ’اُنس‘ ہوا ہے؟
کیا آپ کسی کی تکلیف اس کیلئے اس کے گھر والوں سے بھی زیادہ محسوس کرسکتے ہیں؟ کیا آپ کو’ذرا ہٹ کہ‘ فلم پسند ہیں؟ کیا آپ کو سنیما میں بغیر کسی ’ڈھشم ڈھشم‘ یا ساؤنڈ ایفیکٹس یا اسپیشل ایفکٹس یا گانوں، دھواں دار ڈائیلاگز اور شور شرابے کے سیدھی آہستہ فلم پسند آسکتی ہے؟ کیا آپ دماغ سے کہیں زیادہ دل کے قریب ہیں؟کیا آپ نے ’جڑواں‘، ’میں تیرا ہیرو‘، ’دل والے‘ اور ’ڈھشوم‘ دیکھتے ہوئے نہیں بلکہ ’بدلا پور‘ میں ورون کی ایکٹنگ دیکھ کر انھیں پسند کیا ہے؟
ظاہر ہے زیادہ تر کا جواب ’ہاں‘ میں ہوگا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ’ہاں‘ غلط ہے کیونکہ زندگی کے کھیل میں سب کو ’پریکٹیکل‘ ہونا پڑتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’اکتوبر‘ بہت کم دیکھنے والوں کو پسند آئے گی کیونکہ زیادہ تر لوگوں کیلئے ’انٹر ٹینمنٹ‘ کا پیمانہ الگ ہوگا اور یہ پیمانہ رکھنا غلط نہیں کیونکہ وہ فلم دیکھنے گئے اور ’اکتوبر‘ میں کچھ بھی ”فلمی“ نہیں۔
جو لوگ اسپتال کی ”روٹین“ کا تجربہ دل سے بھی کرچکے ہیں وہ بھی دنیا کے بکھیڑوں کی وجہ سے کافی چیزیں بھول چکے ہوں گے، فلم کی کہانی، اداکاری اور ٹریٹمنٹ زندگی سے بہت قریب اور فلموں سے بہت دور ہے۔
اس فلم کیلئے سب سے پہلے تو باکس آفس کے شہزادے ورون دھون کو شاباش جنھوں نے باکس آفس پر سپر ہٹ اور بلاک بسٹر سمیت مسلسل 9 کامیاب فلموں کے بعد اتنا بڑا ’رسک‘ لیا۔
اب فلم کا باکس آفس پر نتیجہ کچھ بھی ہو ورون نے اداکاری کا امتحان ’فلائنگ کلرز‘ میں پاس کیا ہے اور یہ اداکاری کے لحاظ سے ان کی اب تک کی سب سے بہترین فلم ہے۔
فلم میں ’ہوٹل مینجمنٹ ٹرینی‘ کا رول انھوں نے بخوبی نبھایا اور منیجر باس کے سامنے طلبی ہو یا پھر اس مینجر کی جنرل منیجر سے ’چغلی‘، لانڈری میں بڑھکیں مارنے کے بعد سبکی ہونے کا سین ہو یا دوستوں کے ساتھ گھر پر کھانے کا، اسپتال میں سب پر نظر رکھنی ہو یا کومے میں گئی ’شیولی‘ کے پریکٹیکل چاچا سے کڑھنا ہو، واچ مین کو مسکہ لگانا ہو یا سیکورٹی والے سے نوک جھونک یا پھر پونچھا لگتے ہوئے دوسروں سے بھی پیر اوپر کروانا، یورین بیگ سے گردوں کو جانچنا ہو یا اسپتال میں ٹائم گزارنے کیلئے” ریسپشن“ پر مغز ماری سب مناظر میں ورون چھا گئے۔
سب جگہ ان کے مکالمے زندگی سے بہت قریب ہیں، فلم کیونکہ چھوٹے بجٹ کی ہے اس کو ہٹ ہونے کیلئے 50 سے 70 کروڑ کا بزنس کافی ہوگا لیکن فلم کا اتنا بزنس کرنا ہی چیلنج ہے کیونکہ یہاں یہ بھی ثابت ہوگا کہ ورون کے پرستار انھیں مخصوص فلمی کرداروں کے علاوہ بھی پسند کرتے ہیں یا نہیں؟
فلم میں بنیتا سندھو نے ’شیولی‘ کا کردار ادا کیا ہے اور پہلی ہی فلم کیلئے گلیمر سے دور بنیتا نے اپنی لمبی زلفوں کی قربانی دی اور مکالمے بھی کم بولے لیکن اپنے چہرے اور آنکھوں سے یادگار اداکاری کی۔
شیولی کی ماں کا کردار ادا کرنے والی گیتا نجلی راؤ فلم کا تیسرا سب سے اہم کردار ہے، گیتا نجلی بڑی بیٹی شیولی سمیت تین بچوں کی ماں، پروفیسر اور بیوہ ہیں۔
ہمارے خیال میں ان کو مستقبل میں اور بڑے کردار بھی ملیں گے، شیولی کے پریکٹیکل چاچا نے بھی مختصر اور اچھی اداکاری کی ہے۔ ایسا شخص ہر خاندان میں ہوتا ہے جو صرف دماغ سے سوچتا ہے اور کیلکولیٹر میں تولتا ہے۔
ورون کے باس ”آستھانا“ کا کردار بھی زندگی سے ہی لیا گیا ہے جب ایک حقیقی باس ڈانٹ ڈپٹ اور سیدھا راستہ تو دکھاتا ہی ہے لیکن سچائی اور دل کیلئے قوائد اور ضابطوں کو نرم بھی کردیتا ہے۔ بنیتا اور ورون کے دوست اپنا سب کچھ دوستوں پر قربان کرتے ہیں لیکن ان کی ’لِمیٹیشن‘ بھی ہوتی ہیں۔
فلم ’پیکو‘ اور ’وکی ڈونر‘ جیسی آف بیٹ فلموں کے ڈائریکٹر شوجت سرکار نے بنائی ہے لیکن اس بار وہ اپنے آپ کو چیلنج دینے میں ایک قدم اور آگے آئے ہیں۔ اس بار انٹر ٹینمنٹ اور پروڈکشن ویلیو کم اور حقیقت کی طرف اور زیادہ آئے ہیں۔
فلم کا نام ’اکتوبر‘ کیوں رکھا گیا ہے، حادثہ کیسے ہوتا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر فلم کے اینڈ میں کیا ہوتا ہے؟ ان تینوں سوالات کے جواب میں کوئی ڈرامہ نہیں کوئی فلم نہیں کوئی مسٹری نہیں کوئی سسپنس نہیں لیکن یہ فلم دیکھ کر آپ کو پتا لگے یہ زیادہ بہتر ہوگا۔
فلم دلی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل اور اسپتال کے گرد گھومتی ہیں، کچھ منٹ دلی سے دور بلند مقام پر بھی شوٹ ہوئے ہیں۔ فلم کی کہانی وہ لوگ تو یقینا محسوس نہیں کرسکتے ہیں جو اپنے دوسرے دل یعنی اسمارٹ فون کے ساتھ اسپتال جاتے ہیں، دوسروں کی یا اپنوں کی عیادت کرتے ہیں۔
رات کو اگر وہاں رکتے بھی ہیں تو انھیں نہ تو برابر والے بستر یا کمرے کے مریضوں کی حالت کا علم ہوتا ہے نہ وہ اسٹاف سے زیادہ بات کرتے ہیں۔ نہ ہی وہاں دوسرے رکے ہوئے لوگوں کی کہانیاں سنتے ہیں یا کھانا شیئر کرتے ہیں۔
ان کا کھانا، پیزا یا برگر بھی اسپتال میں کہیں بھی کبھی بھی ڈیلیور ہوجاتا ہے اور وہ خود بھی فیس بک، واٹس ایپ یا ٹوئٹر کے ذریعے پوری دنیا سے ”کنیکٹ“ ہوئے ہوتے ہیں لیکن اپنے ارد گرد کا ’درد‘ محسوس نہیں کرسکتے اور شاید یہی پریکٹیکل دنیا ہے اور اسی دنیا میں سے کچھ لوگ یہ فلم دیکھتے ہوئے بھی موبائل فون اورکچھ خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سنیما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی ، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے، جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں۔کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے،جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگاورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔
ٹھہریں رائے کا اظہار کرتے جائیں: