16 اپریل ، 2018
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے والدین کے لیے بچوں کی تعلیم کا حصول مشکل بنا دیا ہے اور تعلیمی سال کے آغاز پر بچوں کو نئی کتابیں کاپیاں دلانا والدین کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے۔
آئین کا سیکشن 25 اے کے مطابق ملک کے ہر بچے کو جس کی عمر 5 سال سے لے کر 16 سال کے درمیان ہے مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
بطور قوم ہماری خواہش ہے کہ ملک میں تعلیم عام ہو اور آج کل طالبعلم تعلیمی سال مکمل ہونے کے بعد نئی کلاسوں میں جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
محکمہ شماریات کے مطابق مارچ 2017 کے مقابلے میں مارچ 2018 میں تعلیم کی مہنگائی 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
تعلیمی سال کے آغاز پر بچوں کو نئی کتابیں کاپیاں دلانا والدین کے لیے چیلنج بن چکا جب کہ بچوں کا تعلیمی کورس خریدنے کے لیے نکلے کئی والدین مہنگائی کے باعث اپنی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ آج کل فقیر کے بچے بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور میں خود مزدوری کر کے بچوں کو پڑھاتی ہوں، اپنا نوالہ تک بچوں کی پڑھائی پر لگاتی ہوں، ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں کہ روٹی پانی کو چھوڑیں بچوں کے کورس کے لیے کوئی انتظام کریں۔
خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ کورس کے لیے دربدر پھر رہی ہوں، کورس کہاں سے لاؤں؟ خود کو بیچ کر کورس خریدوں پھر مار کر لاؤں۔
خاتون نے مزید بتایا کہ میری بیٹی دسویں کلاس میں جانے والی ہے اور اس کا شناختی کارڈ بھی نہیں بن رہا، بتائیں کہ میں اس کا شناختی کارڈ کہاں سے لاؤں؟ آخری حل یہی رہ جاتا ہے کہ خود کشی کر لوں۔
ایک اور شہری نے بتایا کہ اسکولوں کا مونو گرام لگا کر 40 روپے والی کاپی 120 سے 130 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔
اس ساری صورتحال میں ملک میں تعلیم اچھا کاروبار بن چکی ہے جب کہ ریاست بھی مفت تعلیم دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری بھی پوری کرنے میں ناکام ہے۔