عام آدمی کیا پڑھ رہا ہے ۔۔۔ ؟

عام آدمی کی دلچسپی کے موضوعات کو جانچنے کا سادہ سا طریقہ محلے کے بک اسٹال کی سیر ہے—۔ فوٹو/ لکھاری

گزشتہ ماہ کتابوں کا عالمی دن منایا گیا۔ عام تاثر یہ ہے کہ پاکستانی قوم کتاب سے زیادہ شغف نہیں رکھتی۔ بقول یوسفی صاحب 'اب کتاب مانگ کر تو کیا، چُرا کر پڑھنے کا رجحان بھی نہیں رہا'۔ یقیناً  ٹی وی اور موبائل فون کا بڑھتا ہوا استعمال کتاب سے دوری کی اہم وجہ ہے۔

موجودہ صورت حال میں ہمیں کتاب دوست معاشرے کو فروغ دینےکی ضرورت ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ لوگ کیا پڑھ رہے ہیں؟ اور عام قاری کن موضوعات میں دلچسپی لیتا ہے؟

عام آدمی کی دلچسپی کے موضوعات کو جانچنے کا سادہ سا طریقہ محلے کے بک اسٹال کی سیر ہے۔ یقین کریں یہ بک اسٹالز  شہر کی فکری نبض کا سادہ ترین بیرومیٹر ہیں، جن سے معاشرے کی سوچ اور مزاج کے عکاسی ہوتی ہے۔

پچھلے دنوں ایک اسپتال کی انتظار گاہ میں بیٹھنا پڑا تو سوچا کہ وقت گزاری کے لیے قریبی بک اسٹال سے کچھ پڑھنے کے لیے لے لیا جائے۔ ہم جوش میں وہاں پہنچے، بک اسٹال کا جائزہ لیا اور لیتے ہی چلے گئے ۔ یہاں ہر موضوع پر پائیریٹیڈ کتابوں کے ڈھیر تھے اور طرح طرح کی پاکٹ بکس تھیں۔

فوٹو/ لکھاری—۔

اسٹال پر اخبار بھی تھے، لیکن اب اخبارات 'اسمارٹ فون' کی طرح اسمارٹ ہو چکے ہیں اور بوتل کے جن کی طرح صرف ایک 'ٹچ' کی مار ہیں، اس لیے ہمارا ارادہ کتاب خریدنے کا تھا۔ لیکن ارمانوں پر اُس وقت اوس پڑ گئی جب زیادہ تر پڑھی ہوئی کتابیں دیکھیں اور نئی پائیریٹیڈ کتابوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہیں تھیں۔ مگر ایک بات تھی کہ پورا اسٹال دلچسپ موضوعات سے بھرا پڑا تھا۔

اسٹال پر مذہبی رنگ پوری طرح چھایا ہوا تھا۔ جیسے سورۃ الرحمٰن اور سورۃ الفاتحہ کی تفاسیر، منزل، قصص الانبیاء اور درود و وظائف پر مبنی کتب بھی اپنی بہاریں دکھا رہی تھیں۔

سنجیدہ قارئین کے لیے شاعر مشرق علامہ اقبال کی کلیات بھی تھی اور صوفیانہ کلام میں شاہ لطیف، وارث شاہ اور بلھے شاہ کا کلام بھی۔ اس کے علاوہ حکایت سعدی، اقوال زریں، سچی حکایات سے لے کر عمادالدین زنگی اور محمود غزنوی کی زندگی  پر بھی کتابیں باآسانی دستاب تھیں۔

اچھی بات یہ ہے کہ چند پائیریٹیڈ کتب کے ساتھ ساتھ مقامی پبلشرز کی گائیڈ بکس، اردو انگریزی ڈکشنری، انگریزی زبان سیکھنے اور گرامر و قواعد کی کتابیں بھی کم قیمت پر دستیاب تھیں۔

فوٹو/ لکھاری—۔

یہاں ہماری ملاقات عبداللہ سے ہوئی، جو کورین زبان پر کتاب لینے آئے تھے۔ وہ کوریا جانے کی تیاری کر رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں یہ زبان سیکھنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اکثر اس اسٹال پر آتے ہیں، یہاں کم قیمت پر اچھی کتابیں مل جاتی ہیں، پچھلی دفعہ انھوں نے گرافک ڈیزائن پر کتاب خریدی تھی۔

ایک طرف محبوب سے ہم کلام ہونے کے لیے رفیع کے یادگار گانوں پر مشتمل کتاب دستیاب تھی، تو دوسری طرف شاہ کار غزلوں، عشقیہ و المیہ اشعار والی پائیریٹیڈ کتابوں سے 'ناکام عاشقوں' کے دلوں کو تسکین پہنچانے کا سامان بھی دستیاب تھا۔

یہی نہیں بالی وڈ اداکاروں شاہ رخ، کترینہ کیف اور ایشوریا رائے کی تصاویر والی پاکٹ سائز بکس بھی دستیاب تھیں، جن کے ٹائٹل ذرا 'وکھڑی ٹائپ' کے تھے۔

فوٹو/ لکھاری—۔

'بزم فراز'، 'یادگار فراز'، 'شب غم'، 'شدت غم'، 'بھیگی آنکھیں' اور 'میری پہلی محبت' کے عنوانات پر مشتمل پاکٹ سائز کتابیں بھی وہاں وجود تھیں، یعنی اس اسٹال سے یہ تو اندازہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ محبت پرور نہیں بلکہ اس کا گلاگھوٹنے پر تلا بیٹھا ہے، جس کے بعد پھر پڑھنے کے لیے شاید 'غمگین اردو شاعری' ہی رہ جاتی ہے۔

اس اسٹال سے کتاب خریدیں اور اپنا علاج باآسانی کر یں، کیونکہ آپ کے لیے یہاں 'طب نبوی'، 'اپنا علاج خود کریں'، 'اپنا دواخانہ' نامی کتابوں کے علاوہ شہد، کلونجی ،سبزیوں اور پھلوں سے علاج کے طریقوں پر مبنی کتابیں بھی پائی گئیں۔

اگر آپ روزگار کی تلاش میں ہیں تو گھر بیٹھے 'رہبر روزگار'، 'بیوٹی پالر گائیڈ'، 'پولٹری فارمنگ' اور 'موبائل ریپیئرنگ' سیکھ کر چار پیسے کماسکتے ہیں۔

ایک نوجوان بک اسٹال پر کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا ہے—۔ فوٹو/ لکھاری

یہ ہی نہیں بلکہ اس بک اسٹال پر 'ٹیلی پیتھی سیکھیں'، 'دوسروں پر جادو کیجئے'، 'شبعدہ بازی'، 'آئینہ علمیات'، 'خزینہ علمیات' جیسی کتب بھی دستیاب ہیں، جن سے نہ صرف آپ 'علم' سیکھ سکتے ہیں بلکہ اپنا کاروبار بھی چمکاسکتے ہیں، لیکن اپنی ذمہ داری پر۔

اس کے علاوہ 'اعداد کی حیرت'، 'آپ کے برج'، 'آپ کے ستارے' اور 'خواب کی تعبیر جانیں' نامی کتابوں کے مطالعے سے بھی یقیناً آپ 'پیر بابا' کی صفات حاصل کر سکتے ہیں۔ 

آپ بھی حیران ہوں گے کہ جن موضوعات پر لب کشائی کرنا ہمارے معاشرے کا رواج نہیں، اسٹال پر ان موضوعات پر کتابیں بھی دستیاب تھیں، جیسے کہ 'آداب'، 'تحفہ دلہن'، 'ثمر خلوت'، لیکن ہم اُس وقت چونک گئے جب سابق کشمیری وزیراعظم 'کوکا پنڈت' کی مشہور و قدیم ہندوستانی کتاب پر ہماری نظر پڑی۔ یہی نہیں بلکہ اس موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا بھی موجود تھا۔

بک اسٹال کے مالک محمد کریم صاحب کا کہنا تھا کہ لوگ زیادہ تر کم قیمت اور مذہبی کتابیں لینا چاہتے ہیں۔ کتب خریدنے کا رجحان ہمارے ہاں کم ہوا ہے اور مہنگائی کی وجہ سے ایک بڑا طبقہ کتاب پر پیسے خرچ کرنا فضول خرچی سمجھتا ہے، لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان کا اسٹال اچھا خاصا چلتا ہے۔

محمد کریم صاحب کی رائے سے ہم ہی کیا سب ہی متفق ہیں کہ وقتی طور پر کتب بینی میں کمی آسکتی ہے لیکن معاشرے سے کتاب کا رشتہ کبھی ختم نہیں ہوگا، چاہے ٹیکنالوجی کوئی بھی شکل کیوں نہ اختیار کرلے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔