11 جون ، 2018
'جھرنا باسک'، ماضی میں پاکستانی فلموں کی بہترین اداکارہ اور نمبر ون ہیروئین شبنم کا اصل نام ہے۔ اگر آپ پہلے اس نام سے واقف نہیں تھے تو اب جھرنا باسک کو یقیناً اچھی طرح جان گئے ہوں گے۔ بلیک اینڈ وائٹ فلمیں ہوں یا رنگین، ہر جگہ ان کا بنگالی جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔
ایک عرصے تک پاکستان میں رہنے کے بعد انہیں یہ دیس چھوڑنا پڑا اور وہ بنگلہ دیش میں جا بسیں۔ پچھلوں اور بچھڑوں کو یاد کرنا ہمارا شیوہ نہیں، لہذا ہم نے ان کو ایک بھولی ہوئی داستان بنا ڈالا۔
گزشتہ برس کراچی لٹریچر فیسٹیول میں ان کی آمد شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ مجھے یاد ہے کہ پنڈال میں داخل ہوتے ہوئے ان کے انداز میں تھوڑی حیرانی اور آنکھوں میں بہت زیادہ خوشی تھی، جو چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔ جھرنا باسک عرف شبنم اب بھی اپنے وقتوں کی طرح ہی حسین لگ رہی تھیں، بنگالی حسن جہاں سوز کی مثال!
پچھلے ہفتے بھی ہماری یہ اداکارہ ایک پرانی خبر پر 'نئے تڑکے' کے ساتھ میڈیا کی زینت بنیں، جب خوشاب کے ایک ٹرانسپورٹر فاروق بندیال کو پی ٹی آئی کی رکینت دینے سے لے کر نکال باہر کرنے کی خبریں 'سیاق و سباق' کے ساتھ ہمارے میڈیا کی ٹاپ اسٹوری رہی۔ ہمارے لیے اس پوری خبر کا درد ناک پہلو فاروق بندیال کے ساتھ شبنم کا نام اور تصویر تھا۔
میری دوست نے بتایا کہ اس کی بیٹی نے 'فاروق بندیال اور شبنم ڈکیتی کیس' کی اصل حقیقت کو میڈیا کی ٹاپ اسٹوری بنتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ وہی خاتون ہیں جن سے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آپ نے ہاتھ ملایا تھا، ان کے ساتھ ایسا ہوا؟
اس خبر کی خبریت کو کوئی چیلنج نہیں کر رہا۔ ایک سادہ سا سوال ہے کہ کیا خبر کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے شبنم کا نام اور تصویر میڈیا پر چلانا درست عمل تھا؟ دو تین دن تک سوشل میڈیا سے لے کر مرکزی میڈیا تک ہر جگہ فاروق بندیال اور عمران خان کی ملاقات کی تصویر کے ساتھ شبنم اور اس واقعے کی تفصیلات مع سیاق و سباق گردش کرتی رہیں۔
کیا خبر کی سنگینی کو نظرانداز کرتے ہوئے شبنم کا نام اور تصویر میڈیا پر چلانا درست عمل تھا؟
اس اہم خبر کے آغاز سے ہی صحافتی اقدار اور میڈیا اخلاقیات (Media Ethics) کی اہمیت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا۔ میڈیا اخلاقیات ہر خبر کی بنیاد ہے، اس کا خیال ہمیں ہی رکھنا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ زیادتی کے کیس میں خاتون کا نام یا تصویر استعمال نہیں کی جاسکتی اور جب بات ہو جھرنا باسک جیسی اداکارہ کی تو ہماری ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے، لیکن یہاں اداکارہ کی پرائیویسی کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔
اگر اس ساری کہانی میں کوئی اچھی بات تھی تو اتنی کہ ایک منوں مٹی تلے دبی ہوئی خبر پر سے دھول کو جھاڑا گیا اور خبر کی 'حقیقی کہانی' منظر عام پر لائی گئی۔ اس کہانی میں کئی ولن مل کر ایک عورت پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ اس کریہہ واقعے پر ہم پاکستانیوں نے اس مظلوم اور نامور اداکارہ کے خشک ہوچکے آنسوؤں کو اپنے دلوں پر گرتے محسوس کیا۔ وہ عورت، وہ اداکارہ ہماری تھی، ہے اور رہے گی۔
ہر پاکستانی اداکار احسن خان کے ساتھ ہے، جنہوں نے شبنم کے نام اور تصویر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کھل کر کہا کہ 'سیاست میں اتنی بڑی اداکارہ کو نہیں کھینچنا چاہیے، ان کے ساتھ پہلے ہی بہت زیادتی ہو چکی ہے'۔
دوسری جانب اس خبر کے ساتھ ہی ہمارا سیاسی مزاج بھی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگیا، یعنی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا اور نیچا دکھانے کے چکر میں ہر حد سے گر جانا۔ الیکشن قریب ہیں، لیکن کیا ہمارے سیاست دانوں کو سیاسی بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت نہیں؟ نون لیگ کے کارکنوں کو اس خبر پر تالیاں پیٹنے اور پی ٹی آئی کو اپنی بات سبنھالنے سے ہی فرصت نہیں تھی۔
یہ ہمارا سیاسی کلچر بن گیا ہے کہ اگر سامنے والے پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے تو چھوڑو نہیں۔ یہاں تک کہ ایک بے گناہ عورت کو بھی نہ بخشو۔ جس طرح سیاسی چپقلش میں اس واقعے کی تشہیر کی گئی، وہ کسی بھی طرح درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ سیاسی مخالفین کو سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی مخالفت کرتے ہوئے اپنا کردار بھی بلند رکھیں۔ آپ کو فاروق بندیال جیسوں کو کھڈے لائن لگانا ہی چاہیے۔ بالکل ٹھیک! لیکن جھرنا باسک کی تصویر اور براہ راست نام استعمال کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔
یہ ہمارا سیاسی کلچر بن گیا ہے کہ اگر سامنے والے پر کیچڑ اچھالنے کا موقع مل رہا ہے تو چھوڑو نہیں
ہمارے سیاسی قائدین کو اپنے کارکنوں کو اب اتنی ٹریننگ تو ضرور دینا ہوگی کہ کچھ اصول اور ضابطے توڑے نہیں جا سکتے۔ چاہے وہ مریم نواز کی شادی ہو، فاروق بندیال برطرفی کیس ہو یا پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان کی کتاب پر بحث۔
منجھے ہوئے سیاسی قائدین کو بھی شعور اور سیاسی سمجھ بوجھ کا ثبوت دینا ہوگا۔ وہ پارٹی ٹکٹ دیتے ہوئے اچھی طرح چھان بین کریں۔ اس طرح اگلی دفعہ کوئی برے کردار کا حامل شخص صرف پیسے اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر پارٹی ٹکٹ حاصل نہیں کر پائے گا۔
ایک وقت تھا کہ فاروق بندیال کو ان کے بڑوں نے سزا سے بچا لیا تھا، لیکن قدرت اور جھرنا باسک کے صبر نے ان سے ایسا انتقام لیا کہ اب وہ کبھی بھی نمایاں سیاسی چہرہ نہیں بن سکیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔