23 جولائی ، 2018
'اللہ باجی، مولا تمہیں خوش رکھے۔ اللہ جوڑی سلامت رکھے۔ چاند سا بیٹا دے'، یہ اور اسی طرح کی دیگر دعائیں ہمیں تقریباً روزانہ ہی سننے کو ملتی ہیں اور ان دعاؤں کو فراخ دلی سے دوسروں پر لٹانے والے خواجہ سراؤں یا مخنث افراد کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بے تحاشا میک اپ سے لتھڑے ہوئے چہروں کے ساتھ شادی بیاہ کی محفلوں کو ناچ گانے سے رنگین بناتے یا سڑکوں پر بھیک مانگتے یہ خواجہ سرا شاید لوگوں کو محض ہنسنے کا سامان معلوم ہوتے ہیں۔
لیکن پھر 2009 میں 'ابن آدم' کے اس مظلوم اور کچلے ہوئے طبقے کے لیے موسمِ بہار کی نوید آئی، جب عدالتی حکم نامے کے تحت اس صنف کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا حکم دیا گیا اور نادرا نے جنس کے خانے میں مرد اور عورت کے ساتھ 'مخنث' کا اضافہ بھی کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سرکاری نوکریوں میں بھی خواجہ سراؤں کا دو فیصد کوٹا مقرر ہوا، چند ایک کو نوکریاں بھی ملی لیکن تنخواہ ندارد۔ ان ہی میں سے ایک ڈبل ماسٹرز رفعی خان تھیں، جو 10 ماہ تک تنخواہ کے لیے آواز اٹھاتی رہ گئیں، لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ سرکاری نوکری نہ سہی لیکن اب وہ 'داؤد فاؤنڈیشن' کا حصہ ہیں اور بہت خوش ہیں کہ تعلیم ان کے کام آ رہی ہے۔
ٹرانس جینڈر کامی سڈ سوشل ایکٹوسٹ، فیشن ماڈل اور اداکارہ بن کر ابھریں، بات یہاں رکی نہیں بلکہ معاویہ ملک نے بھی پاکستان کی پہلی خواجہ سرا نیوز کاسٹر کا خطاب حاصل کر بین الاقوامی شہرت پائی۔
2017 کی مردم شماری میں پہلی بار اس صنف کو جگہ دی گئی۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد 10 ہزار 418 ہے، لیکن جینڈر انٹریکٹو الائنس(جیا) کی بندیا رانا یہ تعداد لاکھ سے اوپر بتاتی ہیں۔
ان کا اس بارے میں کہنا ہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈیڑھ لاکھ خواجہ سرا ایڈز کا شکار بن چکے ہیں، پھر تازہ مردم شماری میں صرف 10 ہزار 418 کی تعداد سوالیہ نشان بنے گی۔ بندیا رانا نے مزید بتایا کہ حکومت پاکستان کے بہتر اقدامات کی وجہ سے ان کا عمرے کا سفر بہت آسان رہا۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کی حقیقت کو تسلیم کیا گیا، لیکن شناختی کارڈ میں ان کی صنف کے ساتھ ایکس لکھا گیا ہے، جس سے وراثت کے قوانین میں الجھن ہوسکتی ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی اور سینیٹ نے بھی 'ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل' پاس کرکے مخنث افراد کو معاشرے میں مستحکم جگہ دی۔ اس اہم اور مثبت پیش رفت نے نئی امیدوں کے در کھول دیئے ہیں، جس میں خواجہ سراؤں کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، خاص کر اب ہر مخنث کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی صنف کی شناخت خود کرے۔ اب انہیں کسی میڈیکل سرٹیفکیٹ کے ذریعے اپنی صنف کی شناخت نہیں کرانی ہوگی۔ وہ تیسری جنس کے طور پر پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور ڈرائیونگ لائسنس بنوا سکتے ہیں اور گھر، علاج اور نوکری حاصل کر سکتے ہیں، یعنی اب ہر پاکستانی کی طرح ان کے بنیادی حقوق کا تحفط کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
لیکن کچھ خواجہ سرا اب بھی اس حوالے سے بے یقینی کا شکار ہیں۔ بازار میں بھیک مانگتے ایک عام خواجہ سرا نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ نہیں سجھتے کہ اس پروٹیکشن بل کے بعد بہت کچھ بدلے گا، ہم اس طرح کی باتیں سنتے سنتے اس عمر تک آگئے ہیں۔
اس صنف کے لیے الیکشن 2018 کے معرکے میں بھی بہت کچھ ہے۔ جہاں 2013 میں جینڈر انٹریکٹو الائنس (جیا) کی بندیا رانا نے الیکشن لڑا تھا، وہیں اس مرتبہ آل پاکستان ٹرانس جینڈر الیکشن نیٹ ورک کے تحت 13 مخنث امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ سب سے دلچسپ صورت حال اسلام آباد کے حلقے این اے 53 کی ہے، جہاں سے خواجہ سرا ندیم کشش نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر 34 امیدواروں کو چیلنج کیا ہے۔ ندیم کشش کا بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم کا چلانا ثابت کرتا ہے کہ ان افراد کو بھی معاشرے نے تسلیم کرلیا ہے اور خود ان کی کمیونٹی کے لیے یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، لیکن یہاں بھی بندیا رانا ایک شکایت کرتی نظر آئیں کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 2013 کی طرح اس بار بھی امیدواروں کے فارم میں ان کی صنف کے لیے علیحدہ خانہ نہیں رکھا گیا۔
خواجہ سراؤں کے حوالے سے الیکشن 2018 کی ایک اور خاص بات 'ڈیموکریٹک ایجوکیشن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی' ٹرسٹ کا الیکشن آبزرور کا ایک اسپیشل گروپ تشکیل دینا ہے، جس میں پورے پاکستان سے 125 ٹرانس جینڈر، معذور افراد اور خواتین کو شامل کیا گیا ہے، جو پولنگ کے دوران اپنی کمیونٹیز کے مسائل کو مدِنظر رکھتے ہوئے الیکشن کو مانیٹر کریں گے۔
اس پروگرام کے پروجیکٹ منیجر زاہد عبداللہ کو امید ہے کہ اس عمل سے سیاسی، سماجی اور حکومتی سطح پر اس کمزور طبقے کے مسائل سامنے آئیں گے اور وہ اپنے مسائل بہتر انداز میں بتاسکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہر سطح پر اس طرح کے مثبت رویے اپنائے جائیں گے تو معاشرے کے بہت سے بند ذہن کھلیں گے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ سیاسی اور سماجی سطح پر ان کمزور طبقوں کو آگے لانے سے بہتر سماجی ڈھانچہ ابھرے گا۔ اب ہمیں صرف حقوق کی بات نہیں کرنی بلکہ مل کر ان سب کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہیں اور انہیں تعلیم، صحت اور بنیادی حقوق کا تحفظ بھی دلوانا ہے۔
بندیا رانا اس پورے پروجیکٹ کو بہت خوش آئند سمجھتی ہیں اور ہر سیاسی جماعت میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے ان کا منشور جاننے کی کوشش کرتی ہیں، تاہم افسوس ہوتا ہے کہ ہر پارٹی کے پاس صرف زبانی وعدے ہیں۔
یقیناً یہ مثبت خبریں نہ صرف ہمارے بدلتے ہوئے سماج کے لیے ضروری ہیں بلکہ اُن والدین کو بھی اعتماد اور تقویت دیں گی، جن کے گھر مخنث بچے موجود ہیں۔ ہمیں بھی سمجھنا چاہیے کہ دیگر بچوں کی طرح انہیں بھی پیار، اعتماد اور تعلیم کے ساتھ ساتھ خاندان کی ضرورت ہے۔ معاشرے سے کاٹ کر الگ تھلگ کر دینا ان کے ساتھ ایسا ظلم ہے جو ان کے والدین اور خاندان کرتے ہیں۔ والدین کو سمجھنا ہوگا کہ کچھ ٹرانس جینڈرز اس لیے نمایاں ہیں کیونکہ ان کے گھر والے ان کے ہر مشکل فیصلے میں ان کے ہم قدم تھے اور اسی اعتماد نے انہیں اس قابل بنایا کہ نہ صرف وہ ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام بلند کر رہے ہیں اور یقیناً ان میں سے کچھ حالیہ عام الیکشن میں منتخب ہوکر عوام کے مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔