بلاگ
Time 06 اگست ، 2018

الیکشن کے 'حیران کن' نتائج اور مذہبی رہنماؤں کی شکست، ایک سوالیہ نشان!

اس بار ایم ایم اے کا ووٹ کسی حد تک کٹا ضرور ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا پڑھا لکھا اور سمجھ دار ووٹر اس بار بہت کنفیوز تھا—۔فائل فوٹو

پاکستانی سیاست میں الیکشن کا موسم آتے ہی سیاست دانوں اور عوام میں جوش و خروش بڑھ جاتا ہے، حال ہی میں الیکشن 2018 کی سیاسی گہماگہمی تو اپنے اختتام کو پہنچی، لیکن اس کے بعد جوڑ توڑ کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

اس بار قومی اسمبلی کے 270 حلقوں میں انتخابات ہوئے جبکہ 2 پر ملتوی کردیئے گئے، ہر بار کی طرح اس بار بھی تمام سیاسی پارٹیوں نے پاکستان اور بہتر سیاسی نظام کے لیے ووٹ مانگا، الیکشن ہوئے، خوب سیاسی ہلچل مچی اور عمران خان نے اپنی واضح اکثریت کے ساتھ پاکستانی سیاست کو نیا رخ دیا۔  نتائج پر ہزار اعتراض سہی لیکن ایک بار پھر پاکستان میں جمہوری عمل کا تسلسل ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کے جمہوری ادارے مضبوط ہو رہے ہیں۔

الیکشن ہوئے کوئی 10 دن ہوگئے ہیں۔ اس وقت نئے سیاسی اتحاد اور گٹھ جوڑ کے ذریعے نئی حکومت سازی عروج پر ہے۔ ایک طرف عمران خان کو ملنے والے بڑی کامیابی اور دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کے یکجا ہونے سے سیاسی ہانڈی کی آنچ تیز ہوگئی ہے، ایسے میں شہرِ اقتدار اسلام آباد کا سیاسی درجہ حرارت تو بڑھنا ہی تھا۔

نتائج کی بات کریں تو 2018 کے انتخابات کے بعد جہاں بڑے بڑے سیاسی برج زمیں بوس ہوئے، وہیں ووٹرز  کی طرف سے بھی مختلف اختلافی اور سیاسی رجحانات دیکھنے میں آئے، خاص کر کہیں مذہبی جماعتوں کو خوب ووٹ ملا اور کہیں ان کی اہم ترین وکٹیں ہی اڑا دی گئیں۔

اس بار ایک خاص عنصر نوجوانوں کی بڑی تعداد کا ووٹر لسٹ میں شامل ہونا تھا، جہاں 18 سے 25 سال کے ستر فیصد نوجوانوں نے اپنا پہلا پہلا ووٹ ڈالا، یقیناً ان  28 ملین ووٹرز  کی سوچ پاکستان کا نقشہ بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔

اس الیکشن میں 120 سیاسی جماعتوں اور 2 سیاسی اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' اور 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس' نے حصہ لیا۔ متحدہ مجلس عمل کے علاوہ 18 سیاسی جماعتوں نے مذہبی بنیادوں پر ووٹ مانگا۔

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ان مذہبی جماعتوں کی اہمیت مسلم ہے۔ ان کا ووٹ بینک چاہے کم ہی کیوں نہ ہو، لیکن عوام میں ان کی جڑیں نہایت مضبوط ہیں اور نئی جماعتوں کے علاوہ اکثریت کے پاس خوب سیاسی تجربہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جب جب مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر الیکشن لڑا ہے، انہیں بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔

الیکشن کے 'حیران کن' نتائج نے جہاں سیاسی پارٹیوں کو سراپا احتجاج بننے پر مجبور کر دیا، وہیں مذہبی رہنماؤں کی شکست ایک سوالیہ نشان ہے

عام خیال تھا کہ ہر بار کی طرح اس مرتبہ کے عام انتخابات میں بھی مذہبی جماعتیں اپنا ووٹ بینک برقرار رکھیں گی۔ حالیہ الیکشن میں بھی پاکستان کے نمایاں مذہبی چہرے جمیعت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی کے سراج الحق تھے۔ ساتھ ہی ایک نیا مذہبی 'دبنگ' چہرہ تحریک لبیک پاکستان کے خادم حسین رضوی کی صورت میں بھی اُبھر کر سامنے آیا۔

لیکن الیکشن کے 'حیران کن' نتائج نے جہاں سیاسی پارٹیوں کو سراپا احتجاج بننے پر مجبور کر دیا، وہیں مذہبی رہنماؤں کی شکست ایک سوالیہ نشان ہے۔ خاص کر مولانا فضل الرحمٰن کی 2 اور سراج الحق کی اپنی آبائی اور یقینی نشستوں سے ہارنا تعجب انگیز اور غیر متوقع رہا۔

ایم ایم اے کے لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ الیکشن میں کھلی دھاندلی ہوئی ہے اور  وہ بھرپور احتجاج جاری رکھیں گے، لیکن سیاسی نظام کو نقصان پہنچانا ان کا مقصد نہیں، اس لیے وہ اسمبلوں میں متحد اور مشترکہ اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔

پشاور کے ایک صحافی محمد فہیم اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس بار ایم ایم اے کا ووٹ کسی حد تک کٹا ضرور ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا پڑھا لکھا اور سمجھ دار ووٹر اس بار بہت کنفیوز تھا۔ اس کی اہم وجہ صوبے کی سیاست اور خاص کر سینیٹ میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے کردار ہیں اور پھر ملکی سیاست میں شامل ہونے کے لیے اپنی جماعتوں کے بنیادی نکات سے انحراف بھی اس کی اہم وجہ ہوسکتی ہے، لیکن ان سیٹوں پر ان بڑے سیاسی قائدین کی شکست سمجھ نہیں آئی، کیونکہ آخری اطلاع تک یہ لوگ جیت رہے تھے۔

ایک طرف ایم ایم اے کے پلیٹ فارم کی بڑی شکست نے سب کو چونکا دیا ہے، وہیں تحریک لبیک پاکستان کی بڑے ووٹ بینک کے ساتھ دو صوبائی سیٹوں کا حاصل کرلینا بھی سیاسی تجزیہ نگاروں کے لیے غیر متوقع خبر رہی۔ تحریک لبیک پاکستان 2015 میں سامنے آئی اور یہ ان کا پہلا الیکشن تھا۔ 

اس بار ایم ایم اے کا ووٹ کسی حد تک کٹا ضرور ہے کیونکہ جماعت اسلامی کا پڑھا لکھا اور سمجھ دار ووٹر اس بار بہت کنفیوز تھا

حالیہ الیکشن کے نتائج نے واضح کیا ہے کہ پورے ملک کے 4 فیصد افراد نے اس جماعت کو اپنے ووٹ کا حقدار سمجھا اور مجموعی طور پر اس جماعت کو پورے ملک میں ساڑھے 5 ملین ووٹ ملے۔ الیکشن کمیشن کی جاری کردہ فہرست کے مطابق یہ ملک کی پانچویں اور سندھ کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ خیال رہے کہ تحریک لبیک قومی اسمبلی میں کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کرسکی۔

دوسری جانب سیاسی پنڈتوں کا کہنا درست ثابت ہوا اور تحریک لبیک پاکستان اور دیگر مذہبی جماعتوں کی وجہ سے کئی حلقوں میں مسلم لیگ (ن)، ایم ایم اے اور پی ٹی آئی کا ووٹ بینک کٹا، لیکن یہاں سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ (ن) کو ہوا اور ان کے ہاتھوں سے یقینی 18 حلقے نکل گئے جبکہ پیپلز پارٹی کو اپنے یقینی حلقے لیاری سے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

سینئر صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ لیاری کی سیٹ سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہار اور وہاں سے پی ٹی آئی کی جیت خود پی پی پی کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ پھر تیر کے نشان کو چھوڑ کر جیپ کو صوبائی نشست دے کر لیاری کے عوام نے اپنا غصہ نکال دیا ہے۔ پی پی پی کو کراچی میں ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ میں بھی محنت کرنا ہوگی، جہاں اس کے مخالف گروہ 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس' کا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ چند مذہبی عناصر کی جڑیں بھی عوام میں مضبوط ہیں۔ یہ گروپس اس بار بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکے لیکن اندرون سندھ میں جس طرح مدارس کی تعداد بڑھی ہے، اگلی بار ان کا ووٹ بینک مزید بڑھے گا۔

 پی پی پی کو کراچی میں ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ میں بھی محنت کرنا ہوگی، جہاں اس کے مخالف گروہ 'گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس' کا ووٹ بینک موجود ہے

تحریک لبیک پاکستان کو اتنے بڑے پیمانے پر ووٹ کا ملنا اور وہ بھی کراچی جیسے شہر سے 2 سیٹیں لے کر سندھ اسمبلی تک پہنچنا کراچی کی سیاسی جماعتوں کے لیے جہاں کئی سوال چھوڑتا ہے، وہیں عوام کے رجحانات بھی واضح ہوتے ہیں۔

پاکستان اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ مذہبی اور انتہا پسند جماعتوں کا مقصد جمہوریت کا فروغ نہیں ہوتا، یہ بس اپنے اسٹریٹ پاور شو کے ذریعے نظام کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔ ان کو قومی دھارے میں لانا ضروری ہے، یہ خود رو نہیں ہیں، لہذا اداروں کو ابھی سے ان پر توجہ دینا ہوگی۔

ماضی میں بھی دیکھا گیا کہ ان جماعتوں نے معاشرے کو مزید تقسیم کیا ہے اور اب 'نیا پاکستان' کم از کم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔