27 ستمبر ، 2018
'باجی! یہ لیں میں آپ کی چائے لے آیا۔ آپ کی پسند کی الائچی والی چائے'۔ چائے کے ڈھابے پر کام کرنے والے 12 سالہ عبداللہ کو سب ہی جانتے ہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے اُس سے سوال کیا کہ 'بھئی یہ کیا! تم اتوار کے دن بھی کام پر آتے ہو۔آ ج تمھارے سیٹھ نے چھٹی نہیں دی۔ آج تو تمھاری چھٹی ہونی چاہیے تھی؟' بس میرا اتنا کہنا تھا کہ عبداللہ کی تیز گام چل پڑی۔
اُس نے الٹا مجھ سے ہی سوال کر ڈالا، 'کیوں آپ بھی تو آج دفتر آئی ہیں'؟
میں نے جواب دیا، 'بیٹا میری ہفتہ وار چھٹی تو پیر کو ہوتی ہے، لیکن تمھیں بھی تو آف ملنا چاہیے۔آرام کی تو سب کو ضرورت ہوتی ہے۔ تم تو چھوٹے سے بچے ہو'۔
جس پر عبداللہ بولا، 'اچھا ٹھیک ہے! مجھے بھی چھٹی ملنی چاہیے، آرام چاہیے، لیکن مجھے چاہیے ہی نہیں، کیونکہ مجھے جب امی کے ساتھ کہیں جانا ہوتا ہے یا جب میں بیمار ہو جاؤں تو سیٹھ مجھے چھٹی دے دیتے ہیں۔ پیسے نہیں کاٹتے۔کیا یہ کافی نہیں؟'
پھر بولا، 'اسی طرح کی باتیں ایک دن ایک آنٹی بھی کر رہی تھیں۔ وہ ڈھابے پر آئیں اور کہا کہ آج مزدور بچوں کا دن ہے۔ انہوں نے میرا نام پوچھا، میرے ساتھ کام کرتے ہوئے تصاویر بنوائیں۔ ایک چاکلیٹ کا ڈبہ، رنگین پینسلیں اور ایک ڈرائنگ کی کتاب دی اور پوچھا اسکول کیوں نہیں جاتے؟ سیٹھ نے کہا کہ اسکول بھی جاتا ہے اور کام بھی کرتا ہے۔ اب بتائیں کہ کیا میں بچہ ہوں؟ میں پورے 12 سال کا ہوں۔ میرے سیٹھ کو بھی سنا کر گئیں کہ وہ بچے سے کام کرواتے ہیں اور سیٹھ پورا دن مجھے سخت نظروں سے گھورتے رہے تھے'۔
عبداللہ نے سوال کیا، 'باجی! آپ لوگ مجھے بچہ کیوں سمجھتے ہیں؟ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں چھوٹا ہو کر کام کیوں کرتا ہوں، لیکن میں بہت سمجھدار ہوں'۔
اور عبداللہ کی اگلی بات نے مجھے واقعی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا جب اُس نے کہا، 'حکومت کو تو جیسے بڑا خیال ہے کہ معصوم بچوں سے کام کروانا جرم ہے۔کیوں جرم ہے؟ ہم بھی محنت کرکے کچھ کما لیتے ہیں۔کیا اس لیے جرم ہے؟ اگر ہم یہ نہ کریں تو کیا بھیک مانگیں؟ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائیں؟ تب ٹھیک رہے گا؟'
ساتھ ہی اُس نے مجھ سے سوال کیا، 'آپ اٹھائیں گی یتیموں کی ذمہ داری؟ لیکن میں آپ سے مدد لوں ہی کیوں؟ میری ماں نے مجھے سختی سے منع کیا ہے کہ کسی سے مدد نہیں لینی اور میں کبھی لوں گا بھی نہیں'۔
عبداللہ کا کہنا تھا، 'مجھ جیسے کتنے ہی بچے ہیں، جو اپنے گھروں کے کماؤ پوت مرد ہیں؟ میں کام نہیں کروں گا تو کھاؤں گا کیا؟ ٹھیک ہے زیادہ پیسے نہیں ملتے۔ بچہ ہوں تو پیسے بھی اتنے ہی ملتے ہیں، لیکن میری ماں کے لیے تو میرے کمائے ہوئے وہ 4 ہزار روپے بھی کسی نعمت سے کم نہیں'۔
وہ بول رہا تھا اور میں بس سن رہی تھی، 'دوسرے شہروں سے کتنے ہی فقیر اور بھیک منگے خاندان ہمارے شہر آجاتے ہیں۔میں اکثر اسکول جاتے ہوئے دیکھتا ہوں، سڑک پر بھیک منگوں کے ٹولا گزر رہا ہوتا ہے۔ اس میں کتنے ہی بچے ہوتے ہیں۔ وہ بھیک مانگتے ہیں نا۔ وہ بھی تو بچے ہیں۔ ان کے لیے کوئی کیوں نہیں کام کرتا'؟
عبداللہ کی باتوں نے مجھے شرمندہ کردیا، وہ کہہ رہا تھا، 'ٹھیک ہے آپ اور وہ چاکلیٹ والی آنٹی اگر ہم بچوں کے لیے کام کرنا ہی چاہتی ہیں تو ہمارے سرکاری اسکول میں اساتذہ کی حاضری پوری کروا دیں۔ جو آدھی پونی اور روتے دھوتے مفت کتابیں سرکار ہمارے لیے دیتی ہے، وہ ہم تک پہنچنے کے بجائے عام بازاروں میں کھلے عام کیوں بکتی ہیں؟ پوری نا سہی اور دیر سے ہی سہی کتابیں مل تو جاتی ہیں اور میں پڑھ بھی لیتا ہوں۔ ہمارے لیے وہ کتابیں بہت ضروری ہیں۔ میرے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے'۔
اس کا شکوہ بجا تھا، 'لیکن باجی اسکول میں استاد بالکل دلچسپی سے نہیں پڑھاتے۔ وہ تو میں اپنے ساتھ اسکول کا بستہ رکھتا ہوں، اللہ بھلا کرے سیٹھ کا، جس نے کہہ رکھا ہے کہ جب ڈھابے پر کوئی کام نہ ہو تو میں اپنا اسکول کا کام کرلوں۔ ہاں کبھی کبھی کچھ چیزیں سمجھ نہیں آتیں تو دل چاہتا ہے کہ کوئی تھوڑی سی مدد کر دے۔ میں نے ان این جی او والی آنٹی سے بھی کہا تھا کہ ہمیں ٹیوشن دلوا دیں'۔
وہ سب معصوم سے چہرے تلاش رزق میں گم ہیں
جنہیں تتلی پکڑنی تھی، جنہیں باغوں میں ہونا تھا
وہ کہہ رہا تھا، 'میری امی بھی سلائی کڑھائی کرتی ہیں، لیکن میری بھی ذمہ داری ہے۔باپ سر پر نہیں تو مجھے ہی محنت کرنا ہے۔ اگر آپ لوگ اسی طرح کی باتیں کرتے رہیں گے تو سیٹھ لوگ تو ہمیں نوکری ہی نہیں دیں گے'۔
عبداللہ کی آنکھوں میں ایک عزم تھا، 'میری والدہ درست کہتی ہیں کہ شوقین بچوں کو کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ دیکھیے گا، میں بھی ایک دن پڑھ جاؤں گا تو ڈھابے پر تھوڑی بیٹھوں گا! ویسے بھی ڈھابے کی نوکری میری مجبوری نہیں ذمہ داری ہے۔ آخر کو میں اپنے گھر کا واحد کماؤ پوت جو ہوں'۔
آخر میں عبداللہ نے درخواست کی، 'آپ حکومت سے کہیں کہ ہمیں تھوڑا بہت کام کرنے دیں۔ ہاں ہمیں اسکول جانا ہے اور پڑھنا ہے۔ چائلڈ لیبر کی روک تھام یقیناً اچھی سوچ ہے، لیکن محنت میں تو کوئی شرم نہیں ناں؟'
اور میرے پاس عبداللہ کے کسی سوال، کسی بات کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میرے ایک سوال کے جواب میں اس نے اپنے چھوٹے سے ذہن میں سمائی وہ بڑی بڑی باتیں کہہ دیں، جو اسے اس کے تجربے سے حاصل ہوئی ہیں۔ وہ بلاشبہ چھوٹا سا بچہ ہے لیکن زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ہم بڑوں سے کہیں زیادہ واقف ہے۔ وہ تعلیم کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا لیکن خود کو ذمہ داریوں کی بیڑیوں سے آزاد بھی نہیں کروا سکتا۔
ہمیں، ہم سب کو مل کر، خصوصاً حکومت کو اس سلسلے میں کچھ اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ معاشی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبے یہ بچے بھی تعلیم و تربیت کے حصول کے ذریعے معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔