بلاگ
Time 06 اکتوبر ، 2018

یہ تیسری جنس ہم سے مانگتی ہی کیا ہے؟

 2017 کی مردم شماری کے مطابق 10 ہزار 418 پاکستانی مخنث افراد ہیں—۔فائل فوٹو

'گھر اچھا بن رہا ہے آپ کا'، شعیب صاحب نے اپنے پڑوسی احمد صاحب کے ساتھ چائے پیتے ہوئے کہا۔

اور پھر سوال داغ ڈالا، 'آپ نے پہلے بتایا تھا کہ آپ کے پانچ بچے ہیں؟' 

'ہاں میرے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی ہے، چھوٹے بیٹے کے علاوہ سب شادی شدہ ہیں'، احمد صاحب نے چائے کی چسکی لی اور بتایا۔

'کیا آپ کا ایک بیٹا الگ رہتا ہے؟ وہ نظر نہیں آتا'، شعیب صاحب نے دوسرا سوال کیا۔

'ایک بیٹا'؟ احمد صاحب تھوڑی دیر کے لیے بالکل چپ سے ہوگئے، پھر ہلکی آواز میں کہنا شروع کیا 'ہاں وہ ساتھ نہیں رہتا۔ دانش نام ہے اس کا۔ وہ چوتھے نمبر کا بیٹا ہے میرا، لیکن وہ تھوڑا الگ ہے۔ اصل میں وہ ٹرانس جینڈر ہے'۔

احمد صاحب نے اٹکتے ہوئے دھیمی اور بجھی ہوئی آواز میں بتایا، 'جب تک دانش ہمارے ساتھ تھا، سب ٹھیک تھا۔ اُس نے انٹر کیا ہے۔10 سال ہوگئے اسےگھر چھوڑے ہوئے۔ درزی کا کام کرتا ہے، لیکن وہ ہمارے ساتھ نہیں گلشن میں اپنے گروپ کے ساتھ رہتا ہے۔ بس کبھی کبھی ملنے آتا ہے'۔

ایک 70 سالہ تعلیم یافتہ باپ جب اپنے مخنث بیٹے کے لیے اس طرح کی بات کرے تو قصوروار کون ہے؟ معاشرے کی فرسودہ سوچ یا پھر خود والدین؟

یہ ہر گھر کی کہانی نہ سہی، لیکن پاکستان کے درجنوں گھروں میں ایسے بچے موجود ہیں اور معاشرے کی عام روش کے مطابق ان بچوں کو نہ گھر والے سمجھتے ہیں اور نہ ہی معاشرہ اور نہ ہی ہمیں ان سے جڑے حقیقی مسائل کا اندازہ ہے۔ ان کے لیے معاشرہ پہلے بھی بے حس تھا اور آج بھی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ہم سب نے کسی حد تک اس سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

لیکن پھر عدالتی حکم پر حکومت نے خواجہ سراؤں کی حقیقت تسلیم کی اور خدا خدا کرکے کچھ فوری اور ضروری اقدامات بھی کیے گئے۔ نادرا میں خواجہ سراؤں کے خانے کا اضافہ ہونے سے ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ سمیت دیگر سرکاری دستاویزات بنوانے میں آسانی ملی۔ عزت سے جینے کے لیے سرکاری نوکریوں میں 2 فیصد کوٹہ مقرر ہوا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھی خواجہ سراؤں کو برابر کا شہری تسلیم کرتے ہوئے انہیں صحت، وراثت اور تعلیم کا حق دینے کی باتیں ہوئیں۔ اس سلسلے میں بڑی کامیابی ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل کی صورت میں ملی اور حالیہ الیکشن میں ندیم کشش کے ساتھ دیگر 13 مخنث امیدواروں کے حصہ لینے سے یہ امید بھی جاگی کہ اسمبلیوں میں پہنچ کر یہ خواجہ سرا اپنی کمیونٹی کے لیے ضرور  ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گے۔

یہاں سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا ان اہم اقدامات سے معاشرہ حقیقی فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے؟ اور کیا تبدیلی کا نعرہ اس کمیونٹی کے حصے میں بھی آئے گا؟ آئیں ان سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ کہ خواجہ سرا کمیونٹی، ہر معاشرے کی ایک زندہ حقیقت تھی اور رہے گی۔ اب ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے تناظر میں دیکھیں تو 2017 کی مردم شماری کے مطابق 10 ہزار 418 پاکستانی مخنث افراد ہیں۔

لیکن جب ہم نے خواجہ سراؤں کی تنظیم انٹر ایکٹو الائنس کی سربراہ بندیا رانا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ 'ان ساری کوششوں سے بھی خواجہ سراؤں کے لیے کوئی بڑی تبدیلی   آئے گی۔ نہ ہی معاشرہ ہمارے بارے میں سوچتا ہے اور نہ آئندہ سوچے گا'۔

ان کا مزید کہنا تھا، 'خواجہ سراؤں پر تشدد اور قتل کی خبریں عام ہیں۔ نہ پولیس ہماری مدد کرتی ہے اور سنوائی تو چھوڑیں ہمارے ساتھ تو کوئی کھڑا ہونا بھی پسند نہیں کرتا۔ شاید معاشرے نے بھی سمجھ لیا ہے کہ نا تو یہ مخلوق کسی کی بیٹی ہے اور نہ ہی بیٹا۔ ان کے ساتھ جو زیادتی کر گزرو کوئی مائی کا لعل پوچھنے والا نہیں، کیونکہ ان کا نہ آگے کوئی ہے اور نہ پیچھے کوئی'۔

پچھلے دنوں بھارتی میڈیا پر شائع ہونے والی ایک خبر نظروں سے گزری، جس میں ریاست اڑیسہ کی 34 سالہ ڈپٹی کمشنر ایشوریہ ریتوپرونہ پردھان کے حوالے سے بتایا گیا، جو خواجہ سرا کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ جان کر سچ مانیں تو بہت خوشی ہوئی لیکن جب اپنے آس پاس نظر دوڑائی تو زیادہ تر خواجہ سرا بھیک مانگتے یا شادیوں میں ناچ گانا کرتے ہی نظر آئے۔

گزشتہ دو تین سالوں میں خواجہ سراؤں سے متعلق جو چند ایک اچھی خبریں ملی ہیں وہ صرف تعلیم اور والدین کے دیئے ہوئے اعتماد کی وجہ سے ہی ممکن ہوا ہے۔ چاہیے وہ نیوز اینکر معاویہ ملک ہوں یا ماڈل کامی سڈ، ڈاکٹر سارہ گل ہوں یا اور کوئی کامیاب اور پُر اعتماد خواجہ سرا۔ ہر ایک کی کہانی میں اچھی تعلیم اور والدین کی جانب سے دی گئی خوداعتمادی کا بڑا کردار ہے۔

رفی خان بھی ایک تعلیم یافتہ خواجہ سرا ہیں۔ وہ ان خواجہ سراؤں میں شامل تھیں جن کو عدالتی حکم پر سرکاری نوکری دی گئی، لیکن ان کی کنٹونمنٹ بورڈ کی نوکری کئی ماہ بغیر تنخواہ کے کام کرنے کے بعد بھی آگے نہ چل سکی۔ اب وہ داؤد فاؤنڈیشن کا حصہ ہیں اور سمجھتی ہیں کہ حکومتی و عدالتی اقدامات سے فوری فرق نہیں پڑے گا۔

پُر امید رفی خان کا خیال ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں اور مزید آئیں گی، لیکن وہ چاہتی ہیں کہ معاشرے کی سوچ بدلنے کے لیے صرف سرکاری اقدامات ہی نہ کیے جائیں بلکہ پرائیویٹ سیکٹر کو بھی آگے آنا چاہیے،کیونکہ ان کی کمیونٹی کا بھی حق ہے کہ ان کو اچھی تعلیم، صحت کی سہولیات اور بہتر نوکریاں ملیں۔

آئیں ہم بھی اپنے معاشرے کو ان کے ساتھ مل کر خوبصورت بنائیں۔ خواجہ سراؤں کو بھی جینے کا حق دیں! بس تھوڑی سی زمیں اور تھوڑا سا اعتماد، جس پر ان کے قدم ٹک سکیں۔ ہم ان کے ساتھ اور وہ ہمارے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے، لیکن ان کو تو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے دیں، انہیں جینے تو دیں۔ یہ تیسری جنس ہم سے مانگتی ہی کیا ہے؟ بس اپنے لیے عزت، امید، صحت، تعلیم اور سب سے بڑھ کر پیار بھری مسکراہٹ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔