09 نومبر ، 2018
اسلام آباد: احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے نئی دستاویزات پیش کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے نیب کی درخواست منظور کرلی۔
فاضل جج نے نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دی، اس موقع پر نواز شریف کے وکلاء اور نیب پراسیکوٹر کے مابین تلخ کلامی اور جھگڑا بھی ہوا۔
نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ میڈیا سے معلوم ہوا کہ ان کے مؤکل سے پوچھا جانے والا سوالنامہ نیب کے پاس موجود ہے، یہ ثابت کریں کہ اگر خبر غلط ہے تو میں الفاظ واپس لوں گا، یہ وہ پراسیکوٹر ہیں جو میڈیا پر بات کرتے ہیں گالیاں دیتے ہیں۔
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی نے کہا ویڈیو سے ثابت کریں میں نے کون سے گالی دی ہے؟
خواجہ حارث نے کہا واجد ضیاء آدھا آدھا گھنٹہ ریکارڈ دیکھ کر جواب لکھواتے رہے ہم نے اعتراض نہیں کیا، ہماری باری پر نیب کو پیٹ میں درد ہوجاتا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا آپ ذاتی حملے کررہے ہیں، ہم قانون پر عمل کریں گے، فاضل جج نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یہ لڑائی والی بات نہیں اب ختم کریں۔
خواجہ حارث نے کہا مستند ذرائع کے مطابق سوالنامہ پراسیکیوشن کو دیا جا چکا ہے، نیب کیسز میں پریکٹس رہی ہے کہ ملزم کو سوالنامہ دیا جاتا ہے، پیشگی سوالنامے میں سوالات کے علاوہ بھی عدالت جو پوچھنا چاہے پوچھ سکتی ہے۔
جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا 342 کے بیان کا مقصد ہوتا ہے، عدالت نے ملزم کے بیان سے نتیجہ اخذ کرنا ہوتا ہے، اگر پہلے سوالنامہ دیا جائے تو 342 کے بیان کا مقصد ختم ہو جاتا ہے، اس طرح تو ہم اپنے گواہوں کو بھی تیاری کرا کے لے آتے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزم کو پیشگی سوالنامہ دینے پر ہمارے بڑے سنجیدہ اعتراضات ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا پھر ہمارا بھی بڑا سنجیدہ اعتراض ہے۔
جج ارشد ملک نے اس موقع پر کہا آج اس معاملے کو حل کر لیتے ہیں، لمبا ہی ہوتا جا رہا ہے، تفتیشی افسر کا بیان مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوشن نے شواہد مکمل کرنے میں 20 دن لگائے۔
خواجہ حارث کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے دس والیم ہیں اوپر سے 8 والیم عبوری اور ضمنی ریفرنسز کے بھی ہیں۔
خواجہ حارث کی نیب کی نئی دستاویزات پیش کرنے کی درخواست کی مخالفت
اس سے قبل دلائل کے دوران خواجہ حارث نے نیب کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یو کے سنٹرل اتھارٹی کے ساتھ خط و کتابت نیب کے ظاہر شاہ نے کی تھی اور وہ عدالت میں گواہ کے طور پر پیش ہو چکے ہیں۔
خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ ظاہر شاہ کی گواہی کے ساتھ یہ دستاویزات کیوں پیش نہ کی گئیں۔
ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر عباسی نے جواب دیتے ہوئے کہا ہم نے ضمنی ریفرنس میں لکھا ہے کہ خطوط کا جواب آنے پر دستاویزات دیں گے جس پر خواجہ حارث نے کہا اگر یہ دستاویزات پیش کرتے ہیں تو ساتھ متعلقہ گواہ کو بھی پیش کریں۔
عدالت نے ریمارکس دیے ان دستاویزات سے فلیگ شپ کے تفتیشی کا کیا تعلق ہے، یہ نیب نے نہیں بتایا، دستاویزات کے ساتھ تفتیشی افسر کا تعلق عدالت خود فرض نہیں کر سکتی، فاضل جج نے استفسار کیا 8 ماہ کی تاخیر سے کیوں یہ دستاویزات پیش کی جا رہی ہیں۔