18 دسمبر ، 2018
اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں نیب نے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کیس کی سماعت کی جس کے دوران نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے حتمی دلائل مکمل کیے، گزشتہ روز سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل مکمل کیے تھے۔
فاضل جج نے فریقین کو قانونی نکات پر کل ایک بجے تک اضافی دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
فلیگ شپ ریفرنس میں خواجہ حارث مزید دستاویزات عدالت میں پیش کریں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں احتساب عدالت کو فلیگ شپ اور العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ گلف اسٹیل ملز کی کسی دستاویز سے نہیں لگتا طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی تھے اور کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، اگر مان لیا جائے کہ گلف اسٹیل میاں شریف کی تھی تو لگتا ہے بےنامی جائیداد رکھنا ان کی روایت ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا شاید نیشنلائزیشن کی طرح کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی اور نواز شریف کی تقاریر سے بےنامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔
اس کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں: پراسیکیوٹر نیب
نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے کہا کہ اس کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق تمام دستاویزات ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں جب کہ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی، درمیان میں قطری شہزادے کا خط بھی آگیا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا ملزمان کی طرف سے دی گئیں دستاویزات جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے اور وہ سپریم کورٹ میں جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔
نیب پراسیکیوٹر اصغر اعوان نے کہا سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا، یہی سوالات جے آئی ٹی کو دیے گئے تھے کہ جوابات ڈھونڈ دیں لیکن ملزمان جے آئی ٹی کے سامنے بھی ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا سپریم کورٹ نے فئیر ٹرائل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے کیس نیب کو بھیجا اور ملزمان کو تیسرا موقع دیا جس کے بعد نیب نے ملزمان کو بلایا کہ آکر مؤقف دیں لیکن یہ لوگ پیش ہی نہ ہوئے۔
اس موقع پر جج ارشد ملک نے ریمارکس دیے یعنی بات مے فئیر سے فئیر تک پہنچ گئی جس پر کمرہ عدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
جج ارشد ملک کمرہ عدالت میں لیگی رہنماؤں کی سرگوشیوں پر برہم
سماعت کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما طارق فضل چوہدری اور مریم اورنگزیب نے کمرہ عدالت میں سرگوشیاں کیں جس پر فاضل جج نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔
جج ارشد ملک نے طارق فضل چوہدری کو روسٹرم پر بلایا اور کہا کہ میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی ان پڑھ ہیں لیکن کسی نے بتایا کہ آپ پڑھے لکھے ہیں، آپ کو عدالت کا کوئی احترام ہے، خدا کا خوف کریں۔
جج ارشد عدالت نے کہا کہ میں صرف کیس سے متعلقہ لوگوں کو موجود ہونا چاہیے، جس سے ملنا ہو اس سے باہر جاکر ملیں۔
عدالت کے اظہار برہمی کے بعد مریم اورنگزیب کمرہ عدالت سے باہر چلی گئیں۔
نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کا پس منظر
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما کیس کا فیصلہ سنایا جس کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو اقتدار سے الگ ہونا پڑا، عدالت نے اپنے فیصلے میں شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا۔
عدالت نے احتساب عدالت کو حکم دیا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے۔
نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس بنایا جب کہ نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ (لندن فلیٹس) ریفرنس بنایا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے تینوں ریفرنسز کی سماعت کی، حسین اور حسین نواز کی مسلسل غیر حاضری پر ان کا کیس الگ کیا گیا اور 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 11، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید و جرمانے کی سزا سنائی۔
شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپی گئی جو اس وقت ریفرنسز پر سماعت کر رہے ہیں۔