پاکستان
Time 18 جنوری ، 2019

اصغر خان کیس: عدالت کا ایف آئی اے کے دلائل پرعدم اطمینان، سیکریٹری دفاع طلب

اصغر خان کی گزشتہ سماعت 11 جنوری کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی تھی: فائل فوٹو 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا عبوری تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

اصغر خان کی گزشتہ سماعت 11 جنوری کو سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ہوئی تھی جس میں اصغر خان کے ورثا نے اپنا جواب عدالت میں داخل کیا تھا جس میں کیس کو بند نہ کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے سماعت کا عبوری تحریری حکم نامہ جاری کردیا جس کے مطابق عدالت نے سیکریٹری دفاع کو ذاتی حیثیت میں طلب کرکے کیس میں پیشرفت سے متعلق تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ ایف آئی اے کے دلائل سے مطمئن نہیں ہیں، ایف آئی اے کہتی ہے مقدمہ آگے بڑھانے کی کوئی وجہ نہیں، ایف آئی اے کہتی ہے نامزد افراد کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی، ہمارے خیال کے مطابق کچھ چیزوں سے متعلق تفتیش کی ضرورت ہے۔

حکم نامے کے مطابق ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ مقدمے کی تفتیش کا دائرہ محدود ہے، اس لیے مقدمہ بند کیا جائے جب کہ اصغر خان کے ورثاء کے وکیل نے کہا کہ فیصلے میں کچھ چیزیں طے کر دی گئی ہیں، وکیل نے کہا اس مقدمے میں نظر ثانی اپیل بھی خارج ہو چکی ہے۔

حکم نامے میں مزید کہا گیا ہےکہ ایف آئی اے نے عدالتی فیصلے پر پوری طرح تحقیق نہیں کی گئی لہٰذا ایف آئی اے ایک ہفتے میں جواب جمع کرائے۔

اصغر خان کیس کا پس منظر

1990ء کی انتخابی مہم کے حوالے سے یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں میں پیسے تقسیم کیے گئے۔

خفیہ ایجنسی انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے ایک بیان حلفی میں دعویٰ کیا تھا کہ سیاسی رہنماؤں میں یہ پیسے مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب سے لے کر بانٹے گئے تھے۔

پیسے لینے والوں میں غلام مصطفیٰ کھر، حفیظ پیرزادہ، سرور چیمہ، معراج خالد اور دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کا نام بھی سامنے آیا تھا۔

اس معاملے پر ایئر فورس کے سابق سربراہ اصغر خان مرحوم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، یہ کیس پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اصغر خان کیس کے نام سے مشہور ہے۔

اصغر خان کیس میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ پیسے بانٹنے کا یہ سارا عمل اُس وقت کے صدر غلام اسحاق خان اور دیگر قیادت کے بھی علم میں تھا۔

سپریم کورٹ نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے لیے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف سمیت دیگر سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم اور 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی ذمہ داری مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درنی پر عائد کی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا تھا۔

مرزا اسلم بیگ اور اسد درانی نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ہی نظرثانی اپیل دائر کر رکھی تھی جسے عدالت مسترد کرچکی ہے۔

سپریم کورٹ نے رواں برس مئی میں وفاقی حکومت کو اصغر خان کیس سے متعلق عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ وفاقی حکومت اور ایف آئی اے اصغر خان کیس کے فیصلے کی روشنی میں قانون کے مطابق کارروائی کریں۔

مزید خبریں :