منحرف صحافی کو عاصمہ جہانگیر کیوں یاد آئیں؟

درویشِ بے نشان کو ادارہ ’جنگ‘ کے پیشہ ورانہ بندوبست کی بدولت اور عملہ ادارت کے ذمہ دار ارکان کی شفقت کے طفیل آپ جیسے نکتہ رس پڑھنے والوں تک رسائی کا موقع ملا۔

ہفتے میں دو بار اس نعمت سے استفادہ کرتے آٹھ برس گزر گئے۔ درویش کی قلم کاری کی مدت تیس برس سے کچھ زیادہ ہے۔ طبعاً عقب نشین ہوں اس لئے کہ حاشیہ نشینی کا ذوق نہیں۔ اس دوران مختلف چھوٹے بڑے اداروں سے واسطہ رہا۔ جنگ ایک موقر اخبار ہی نہیں، اسے ملک کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہونے کی سند پر 63برس مکمل ہو چکے۔

 اس اخبار کے ادارتی صفحے پر خامہ فرسائی کا موقع ملا تو خوشی سے زیادہ ذمہ داری کا احساس ہوا۔ شانِ خدا ہے آج زمانہ آیا ہم بے ہنروں کا، ورنہ اس اک ایک شہر میں کیا کیا اہلِ کمال ہوئے۔ زندگی کے اس احسان کی شکر گزاری میں عہد کیا کہ جہاں تک ممکن ہوا، اپنی محدود فہم کی حد تک دیانت سے لکھیں گے۔ 

اتفاق دیکھئے اس موقر اخبار پر جو ایک مدت سے اقتدار کے عزائم کی بازگشت سمجھا جاتا تھا، اچانک پیغمبری وقت آن پڑا۔ آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی۔ طاقت اور اختیار کی ان غلام گردشوں سے بندگانِ خاک نشین کو کیا نسبت ہونا تھی۔ مختصر یہ کہ اخبار نے درویش کی ملفوف سرکشی کا بوجھ اٹھائے رکھا اور قلم کار نے کسی قدر احتیاط کی روش سیکھ لی۔ اس کیفیت کو ہم عصر اردو شاعر اعجاز گل نے کس نفاست سے باندھا ہے

رات نے خواب سے وابستہ رفاقت کے عوض

راستہ بند رکھا دن کی نموداری کا

گزشتہ دنوں پہلی بار ایسا ہوا کہ یکے بعد دیگرے دو مرتبہ کالم نہیں لکھا گیا۔ سبب یہ کہ باہر واقعات کی یورش تھی اور اندر کا موسم دگرگوں تھا۔ قلم کا خیال سے ربط نہیں ہو پایا۔ آج اسی کیفیت کا کچھ بیان ہو جائے۔

بھارت نے ریاست جموں کشمیر سے متعلقہ آئینی بندوبست میں یک طرفہ تبدیلی کر کے کشمیر تنازع کا تناظر تبدیل کر دیا۔ خطے میں کشیدگی پیدا ہونا ناگزیر تھا اور ایسا ہی ہوا۔ ریاست کا دیوہیکل درندہ اپنے حجم اور طاقت کی بدمستی میں پہلو بدلتا ہے تو بہت سی گھاس کچلی جاتی ہے۔

 24روز سے کشمیر کے چپے چپے پر بندوق کا پہرا ہے، گھروں کے دروازے بند ہیں، راستے سنسان ہیں، ایک کروڑ انسان بھوک، پیاس، بیماری، بے بسی اور اہانت کی آزمائش سے دوچار ہیں۔ ہمارے ہاں شعلہ بیانی کی مشق جاری ہے۔ کسی عملی اقدام کے راستے مسدود نہیں تو محدود ضرور ہیں۔ ضمیر عالم حسب توقع غنودگی میں ہے۔ مسلم امہ کے غولِ بیابانی کی حقیقت کھل چکی۔

 ایک صفحے پر قائم حکومت نے سیاسی اختلاف کے خطِ تنصیف کے دوسری طرف واقع سیاسی اثاثوں سے بدستور بے اعتنائی اختیار کر رکھی ہے۔ نتیجہ یہ کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس قومی یکسوئی کا استعارہ بننے کے بجائے جگ ہنسائی کا اشارہ بن گیا۔ بھٹو شہید بھارت کی توسیع پسندی کی شد و مد سے مذمت کیا کرتے تھے۔ اب کھلا کہ بھٹو صاحب نے شاید مجید امجد کی نظم ’توسیع شہر‘ پڑھ رکھی تھی۔ بیس ہزار میں کٹ گئے سارے ہرے بھرے اشجار۔

تیسرا محاذ قانون کی عملداری اور احتساب کا ہے۔ بندی خانوں میں رونق ہے۔ احتساب کے قوانین میں ترمیم کر کے انتظامی اہلکاروں کی تالیفِ قلب کا غلغلہ ہے۔ ہم نے اس ملک میں دہشت گردی کی اصطلاح پامال کی، جمہوریت کو نئے معنی پہنائے اور اب احتساب کا مردہ خراب کرنے پر کمر باندھی ہے۔

 مشکل مگر یہ ہے کہ انصاف کی کرسی کے فیصلوں میں بے یقینی بڑھ جائے تو کتابِ قانون مبسوط نہیں رہتی۔ مہذب قوموں میں حرفِ قانون کی تشریح واضح ہوتی ہے چنانچہ دلیل کی روشنی میں قانونی فیصلے کی پیش بینی کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف انتخاب عوام کے ووٹوں سے طے پاتا ہے چنانچہ انتخاب کا فیصلہ پہلے سے معلوم نہیں ہوتا۔ 

ہم نے یہ ترتیب بدل دی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسی طرح انصاف کی دہلیز پر کھڑے ہیں جیسے 13مارچ 2007کی صبح افتخار محمد چوہدری نے کمرہ نمبر ایک کے دروازے پر دستک دی تھی۔ دیگر تفصیل وقت کے بیجوں پر لکھی ہے۔ سامنے کا منظر البتہ یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے اپنے ادارے کے لئے دو نئے نامزد ارکان کو حلف اٹھوانے سے انکار کر دیا ہے۔

چوتھے کھونٹ پر معیشت کا سود و زیاں دھرا ہے۔ ملکی معیشت کے کار پردازوں نے وزیراعظم کو بتایا ہے کہ بجٹ کا خسارہ تخمینے سے 700ارب روپے بڑھ گیا۔ اس جانگداز بحران سے نکلنے کے دو راستے تجویز کئے گئے ہیں، عوام پر ٹیکس بڑھایا جائے یا 900ارب روپے پر سسکتے ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی کی جائے۔ وزیراعظم نے معاشی مشیروں کو مختصر مدتی اقدامات کا حکم دیا ہے۔

 صاحبزادہ یعقوب علی خان ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے ’ہم اچھے دنوں کی امید پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں‘۔ یعقوب علی خان قومی خسارے کا سودا کرنے کے بجائے منصب چھوڑنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ ہمارے ایک مدبر عبدالرب نشتر اپنی ا یوں بیان کرتے تھے ’ہم سے قافلے منزل پہ لٹوائے نہیں جاتے‘۔

 جسٹس رستم کیانی فرماتے تھے کہ اگر بنیادی حقوق واقعی بنیادی ہیں تو انہیں کھو کر کیا ہم اپنی بنیادیں نہیں کھود رہے؟ ہم نے ایک مدبر، ایک سالار اور ایک منصف کو یاد کیا، اب رہا منحرف صحافی، تو وہ غریب مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو یاد کرتا ہے۔ فروری 2018میں خاموش ہونے والی یہ آواز آج زندہ ہوتی تو راست گوئی کے اس پیکر سے کیا صدا آتی؟ ایران میں 32سالہ خاتون صحافی مرضیہ امیری کو دس برس قید اور 184کوڑوں کی سزا سنائی گئی ہے۔ جمال خاشقجی اور مرضیہ امیری درس دیتے ہیں کہ انحراف غداری نہیں، ضمیر کی اعلیٰ ترین ذمہ داری اٹھانے کا منصب ہے۔ یہ اعزاز اپنی قیمت چکانے والوں کا منتظر ہے مگر ہمارے ہاتھ خالی ہیں۔

اپنے خوابوں سے در و بام سجانے والے

داد دیتا ہوں تری بے سر و سامانی کی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔