پاکستان
Time 16 ستمبر ، 2019

بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنےکا حکم


نئی دلی: بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گنگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقامی اخبار کے ایڈیٹر کی جانب سے جموں و کشمیر میں پابندیاں ختم کرنے کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی جس میں عدالت نے حکم دیا کہ مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی جلد سے جلد بحال کرنے کے لیے ہر اقدامات کیے جائیں۔

عدالت نے کہا کہ حکومت کو ہر اقدام لیتے ہوئے ملکی مفاد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔

بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے معاملے کو جموں و کشمیر کی ہائی کورٹ کے ساتھ بھی اٹھایا جاسکتا تھا۔

عدالت کا میڈیکل، اسپتال اور دیگر کاروبار بھی کھولنے کا حکم

دورانِ سماعت مودی حکومت کے سالیسٹر جنرل نے اپنی ہی عدالت عظمیٰ میں جھوٹ گردانتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں کوئی گولی نہیں چلائی گئی اور وہاں کوئی جانی نقصان بھی نہیں ہوا۔

مودی حکومت کے سالیسٹر نے عدالت کو جھوٹی کہانیاں سناتے ہوئے کہا کہ لداخ کے علاقے میں کوئی پابندی نہیں، 93 پولیس اسٹیشنوں سے پابندیوں ہٹالی گئی ہیں جب کہ وادی میں اسپتال اور میڈیکل اسٹورز سمیت دیگر کاروبار کھلے ہوئے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ کو ہدایت دی کہ شہریوں کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔

بھارتی چیف جسٹس کا جموں و کشمیر جانے کا اعلان

بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیوں سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی جس میں درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد بچے بھی پابندیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہیں۔

دورانِ سماعت بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گگوئی نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار نے جو الزامات لگائے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک رسائی میں شدید دشواریاں حائل ہیں، اگر ضرورت ہوئی تو وہ خود جموں و کشمیر جائیں گے۔

جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک جانا کیوں مشکل ہے؟ چیف جسٹس کا سوال

بھارتی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ درخواست جموں و ہائی کشمیر کی ہائیکورٹ سے متعلق ہے جسے وہ بھی دیکھ سکتی ہے، اس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ تک جانا بہت مشکل ہے۔

بھارتی چیف جسٹس نے اس پر ریمارکس دیے کہ جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ تک جانا کیوں مشکل ہے؟ کیا کوئی راستے میں آرہا ہے؟ ہم جموں و کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے یہ جاننا چاہتے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو خود جموں و کشمیر کی ہائیکورٹ جاؤں گا۔

سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت مل گئی

سپریم کورٹ نے کانگریس رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کو بھی وادی کا دورہ کرنے کی اجازت دے دی۔

عدالت نے غلام نبی آزاد کو شہریوں سے ملاقات کرنے اور ان کو طبی سہولتوں کی فراہمی کو چیک کرکے وادی کی زمینی صورتحال پر رپورٹ دینے کا بھی کہا ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہاکہ غلام نبی آزاد جموں، سری نگری، بارہ مولا اور اننتنگ کا دورہ کرسکتے ہیں تاہم انہیں کسی سیاسی جلسے یا ریلی نکالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

فاروق عبداللہ کی نظربندی پر جواب طلب

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کی نظربندی پر مودی حکومت اور جموں و کشمیر کی انتظامیہ سے جواب طلب کرلیا۔

بھارتی حکومت کا فاروق عبداللہ کی رہائی کی درخواست پر اعتراض

بھارتی حکومت نے نیشنل کانفرنس کے رہنما اور سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے نظر بند کررکھا ہے جس کے خلاف ان کے قریبی تامل ناڈو سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی دوست نے دائر کی ہے۔

بھارتی حکومت نے فاروق عبداللہ کی رہائی کی درخواست پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ درخواست گزار فاروق عبداللہ کا کوئی عزیز نہیں، انہیں رہا کرنے کی درخواست قانونی عمل ناجائز مداخلت ہے۔

کشمیر کی موجودہ صورتحال کا پس منظر

بھارت نے 5 اگست کو راجیہ سبھا میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا بل پیش کرنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی اور ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو وفاق کے زیرِ انتظام دو حصوں یعنی (UNION TERRITORIES) میں تقسیم کردیا جس کے تحت پہلا حصہ لداخ جبکہ دوسرا جموں اور کشمیر پر مشتمل ہوگا۔

بھارت نے یہ دونوں بل لوک سبھا سے بھی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کرالیے ہیں۔

آرٹیکل 370 کیا ہے؟

بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 مقبوضہ کشمیر میں خصوصی اختیارات سے متعلق ہے۔

آرٹیکل 370 ریاست مقبوضہ کشمیر کو اپنا آئین بنانے، اسے برقرار رکھنے، اپنا پرچم رکھنے اور دفاع، خارجہ و مواصلات کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی دیتا ہے۔

بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست مقبوضہ کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے۔

بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت کسی بھی دوسری ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر کا شہری نہیں بن سکتا اور نہ ہی وادی میں جگہ خرید سکتا ہے۔

کشمیر میں اب کیا ہورہا ہے؟

بھارت نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے قبل ہی مقبوضہ کشمیر میں اضافی فوجی دستے تعینات کردیے تھے کیوں کہ اسے معلوم تھا کہ کشمیری اس اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔

اطلاعات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی تعداد اس وقت 9 لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد سے وادی بھر میں کرفیو نافذ ہے، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سروسز بند ہیں، کئی بڑے اخبارات بھی شائع نہیں ہورہے۔

بھارتی انتظامیہ نے پورے کشمیر کو چھاؤنی میں تبدیل کررکھا ہے، 7 اگست کو کشمیری شہریوں نے بھارتی اقدامات کیخلاف احتجاج کیا لیکن قابض بھارتی فوجیوں نے نہتے کشمیریوں پر براہ راست فائرنگ، پیلٹ گنز اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

ریاستی جبر و تشدد کے نتیجے میں متعدد کشمیری شہید اور زخمی ہوچکے ہیں جب کہ کشمیر میں حریت قیادت سمیت بھارت کے حامی رہنما محموبہ مفتی اور فاروق عبداللہ بھی نظر بند ہیں۔

مزید خبریں :