03 اکتوبر ، 2019
ہم معیشت کی خرابی کا رونا روتے رہے لیکن اب پتا چل رہا ہے کہ یہاں تو طرزِ حکمرانی بھی تباہی کہ دہانے تک پہنچ چکا ہے۔
ڈینگی جس کا نام و نشان تک شہباز شریف نے مٹا دیا تھا، اب ایک وبا کی طرح ملک کے مختلف حصوں تک پھیل چکا ہے۔ ہزاروں افراد اس مرض کا شکار ہو چکے، کئی اپنی جانوں تک سے ہاتھ دھو بیٹھے لیکن ڈینگی پر قابو پانے کے لیے جو کوششیں ماضی میں ہمیں نظر آ رہی تھیں، اُس کا ایک فیصد بھی کام تحریک انصاف کی حکومت کے دوران نظر نہیں آ رہا۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ڈینگی عوام پر حملہ آور ہے لیکن وزیراعظم ہوں یا اُن کے لاڈلے وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار یا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان، (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اپنی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے کسی بھی طور پنجاب کے وسیم اکرم پلس سے پیچھے نہیں) ان کی طرف سے نہ عملی طور پر اور نہ ہی زبانی طور پر کوئی فکر مندی دیکھی گئی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ واقعی حکومت سردیوں کا ہی انتظار کر رہی ہے۔ گورننس کے حالات اتنے خراب ہیں کہ کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ پنجاب جو کبھی ہر معاملہ میں مثالی تھا، اب بُرے طرزِ حکمرانی کے طور پر اپنے آپ کو منوانے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ سول سروس اور پولیس کے بارے میں وعدہ تو کیا گیا تھا کہ اُنہیں غیر سیاسی کیا جائے گا لیکن گزشتہ تیرہ چودہ ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت نے ان اداروں کو نہ صرف مزید سیاست زدہ کر دیا بلکہ لگ ایسا رہا ہے کہ گورنمنٹ نام کی کوئی شے موجود ہی نہیں۔
اب تو رشوت، سفارش سے بھی جائز کام بھی نہیں ہو رہے کیونکہ حکومتی مشینری ایسے جامد ہو چکی ہے کہ جیسے کوئی کام کرنے کے قابل ہی نہیں۔ پنجاب کو چھوڑیں، یہاں تو اسلام آباد کے حالات اتنے بُرے ہو چکے۔
اپنی خوبصورتی اور صفائی کی وجہ سے جانے جانیوالے اسلام آباد میں اب جگہ جگہ آپ کو کچرا پڑا نظر آئے گا۔ بڑی بڑی مارکیٹوں میں گندگی کا پھیلاؤ اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ ویسے تو ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد کے بارے میں عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی پلاننگ اور سہولتوں کا یورپ میں بھی کم شہر ہی مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن آج کے اسلام آباد میں تو پانی کا بھی شدید بحران ہے۔ سی ڈی اے اور میئر اسلام آباد کو اختیارات کی جنگ میں جھونک دیا گیا ہے جس کی سزا اسلام آباد کے شہریوں کو مل رہی ہے۔
ایک طرف گندگی، دوسری طرف پانی کا بحران، لیکن کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ پھر اسلام آباد میں جرائم اور ڈکیتیوں میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ پہلے نہ کبھی سنا نہ دیکھا۔ مسلح ڈاکو روزانہ دن دہاڑے سڑکوں پر، گھروں میں زبردستی گھس کر کارروائیاں کرتے ہیں۔
صدر، وزیراعظم، وزراء اور مشیر وغیرہ تو سخت سیکورٹی کے سائے تلے سکون سے اپنے گھروں میں سوتے ہیں لیکن اسلام آباد کے شہری انتہائی غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں ایف 11سیکٹر میں چھ سات مسلح ڈاکوؤں نے ایک ساتھ ایک ہی گلی میں یکے بعد دیگرے تین چار گھروں کو لوٹا۔
ابھی گزشتہ روز پوسٹ آفس کی وین کو سڑک پر روک کر ڈیڑھ کروڑ روپیہ لوٹ لیا گیا، اسی روز ایک اور واقعہ میں ایک شخص جو بینک سے نوے لاکھ روپے نکلوا کر لایا تھا، اُسے بھی سڑک پر مسلح ڈاکوئوں نے لوٹ لیا اور فرار ہو گئے۔ چوری ڈکیتی کے ان وقعات میں بے پناہ اضافہ کے باوجود نہ ہم نے سنا، نہ پڑھا کہ وزیراعظم یا وزیر داخلہ نے اس سلسلے میں کوئی میٹنگ کی ہو یا پولیس اور سول انتظامیہ کو کھینچا ہو۔
لگتا ہے کہ ڈینگی کی طرح کسی کو فکر ہی نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وسیم اکرم پلس ون اور وسیم اکرم پلس ٹو بھی اپنے اپنے وزراء کی کارکردگی سے خوش نہیں اور ممکن ہے کہ اب تینوں حکومتوں کی کابینہ میں تبدیلیاں کی جائیں۔
وزراء کو ضرور تبدیل کریں لیکن وزیراعظم اور تحریک انصاف کے دونوں وزرائے اعلیٰ کو کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ سوچیں اور غور فرمائیں کہ کہیں خرابی کی اصل وجہ وہ خود تو نہیں۔ آج ہی کسی کو کہتے سنا کہ نون لیگ چاہتی ہے کہ پنجاب میں عثمان بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں کیونکہ وہ جو پنجاب کے ساتھ کر رہے ہیں اُس سے بڑی نون لیگ کے لیے کوئی خدمت نہیں ہو سکتی۔