21 اکتوبر ، 2019
میڈیا اور فلم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اپنے ایک حالیہ ٹویٹ میں لکھتی ہیں ’’مسئلہ یہ نہیں کہ مولانا سیاست میں مذہب کا استعمال کر رہے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اعتراض وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود اس ملک کو اسلامی ریاست بنانے کے دعویدار ہیں‘‘۔
چند روز قبل کسی نے وٹس ایپ کے ذریعے مجھے یہ پیغام بھیجا ’’کمال عیاری سے ’’مذہبی کارڈ، مذہبی کارڈ‘‘ کی تکرار سے ملک میں اسلام کے معاشرتی قوانین اور گورننس کے لیے مقرر سیاسی اخلاقیات کے ذکر کو شجر ِ ممنوعہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم کدھر جا رہے ہیں؟‘‘
درج بالا دونوں ٹویٹس کو پڑھ لیں تو ساری بات سمجھ آ جاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ مذہب کارڈ کے استعمال کی بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، اب معاملہ اس طرف جا رہا ہے کہ اگر آپ نے سیاست، حکومت، ریاستی معاملات، معاشرت اور نظام سے متعلق اسلام اور اسلامی اصولوں کے نفاذ کی بات کی تو آپ پر لیبل لگا دیا جائے گا کہ آپ مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں تو اب مذہب کارڈ کے استعمال کی تکرار بہت عام ہو رہی ہے اور اس کو اس انداز میں لوگوں کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے کہ سیاسی، ریاستی اور معاشرتی یا اجتماعی معاملات میں کوئی مذہب اور اسلام کا نام نہ لے سکے اور اگر کوئی لے تو اُسے فوری ٹوک دیا جائے کہ آپ مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
گویا آپ نماز پڑھیں، حج کریں، روزے رکھیں، عبادات کریں کسی کو اعتراض نہیں لیکن اگر کوئی پولیٹکل اسلام کی بات کرتا ہے یعنی اگر کوئی ریاست کے نظام کو، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور عدالتی سسٹم کو اسلامی احکامات اور اصولوں کے مطابق چلانے کا مطالبہ کرتا ہے تو اُس پر لیبل لگا دیا جائے گا کہ آپ مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
عمومی طور پر مغرب سمیت دنیا بھر میں کسی کو مسلمانوں کی عبادات سے کوئی مسئلہ نہیں۔
اسلام سے مخالفت کی اصل وجہ اسلام کا وہ پہلو ہے جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں ریاست، معاشرت، معیشت، حکومت اور سیاست وغیرہ کے لیے واضح اصول ہیں جن کے نفاذ کا اسلام اپنے ماننے والوں سے تقاضا کرتا ہے۔
مغرب کے ساتھ ساتھ لبرل ازم اور سیکولر ازم بھی پولیٹکل اسلام کو ماننے اور اس کے نفاذ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور اسی وجہ سے اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں 72سال گزرنے کے باوجود اسلامی نظام کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا۔
اب حالت یہ ہے کہ اگر عمران خان پاکستان کو ریاستِ مدینہ کے رول ماڈل کی طرز پر بنانے کی بات کرتے ہیں تو اُنہیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ عمران خان ہر ملنے والے سے اس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائے لیکن المیہ دیکھیں کہ اُن کی اپنی منتخب کردہ کابینہ کی اکثریت اس معاملہ میں اُن کے ساتھ نہیں۔
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے کے باوجود اس ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں کیا گیا بلکہ اس حوالے سے رکاوٹوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
پہلی اسمبلی نے قرادادِ مقاصد تو پاس کر لی جس میں عہد کیا گیا تھا کہ اس ملک کو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلایا جائے گا اور اس میں رہنے والے مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق گزارنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے،
1973ء میں ملک کو مکمل اسلامی آئین بھی دیدیا گیا لیکن اسلام اور آئین کی اسلامی شقوں کا نفاذ ہمیشہ خواب ہی رہا اور یوں آج تک ہماری معیشت سودی، سیاست کنفیوزڈ، عدالتی نظام انگریزوں کا، نظامِ تعلیم مغرب کا، میڈیا لبرل، قوانین غیر اسلامی اور عوامی نمائندے نہ اِدھر کے نہ اُدھر کے ہیں۔
اب مذہب کارڈ، مذہب کارڈ کی گردان کو میڈیا اور ٹی وی چینلز کے ذریعے بار بار دہرا کر سیاستدانوں، ریاستی و حکومتی ذمہ داروں، تجزیہ کاروں اور صحافیوں وغیرہ کو مزید کنفیوز کیا جا رہا اور ڈرایا جا رہا ہے کہ خبردار! اگر ریاستی، حکومتی، معاشرتی، معاشی اور قانونی معاملات میں اسلام کا نام لیا تو مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کا لیبل لگا دیا جائے گا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)