Time 12 نومبر ، 2019
پاکستان

سابق سیکریٹری قانون نے اپنے ہٹائے جانے سے قبل کیا کیا؟

فائل فوٹو

 اسلام آباد: سیکریٹری قانون ارشد فاروق کرپشن ریفرنس کا سامنا کرنے پر میڈیا کا نشانہ بن گئے، انہیں حال ہی میں اپنے منصب سے ہٹا بھی دیا گیا لیکن چند ہفتوں قبل ہی انہوں نے نیب قانون میں تبدیلیوں کا مسودہ تیار کیا تھا۔

گریڈ 22 کے چار افسران کو ڈائریکٹر جنرلز مقرر کرنے کی استدعا اور ایک افسر اور بارسوخ داماد کو ایم پی ون اسکیل دینے کی مخالفت کی۔ آیا یہ قسمت کا موڑ تھا یا کچھ اور، میڈیا نے سوال اٹھایا کہ ایک افسر جسے پہلے نیب ریفرنس کا سامنا ہے، وہ سیکریٹری قانون کیسے بن سکتا ہے؟ اس نے وہ رویہ اختیار کیا جو نیب کے حق میں نہ تھا۔

دلچسپ امر یہ ہےکہ دی نیوز انوسٹی گیشن ٹیم کےسینئر رکن عمر چیمہ گزشتہ سال ستمبر میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ وزارت قانون کا ایک اعلی افسر (ارشد فاروق) جس نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کا مسودہ تیار کیا، اسے خود احتساب عدالت میں ریفرنس کا سامنا ہے لیکن نیب نے اس کی تقرری پر کوئی اعتراض کرنے سے قاصر رہا کیونکہ اسے خود انتقامی کارروائی کا نشانہ بننے کا خدشہ تھا۔ نیب وزارت قانون کے انتظامی کنٹرول میں آتا ہے۔

دی نیوز ہی کی رپورٹ کے مطابق یہ بات ماضی کے برخلاف ہے جب نیب نے جوائنٹ سیکریٹری کو ہٹانے کے لئے وزارت کو لکھا تو ان کا تبادلہ وزارت قانون میں کردیا گیا وہ کرپشن الزامات پر زیر تفتیش تھے۔

رپورٹ میں نیب حکام کے حوالے سے کہا گیا کہ ریفرنس درج ہونے پر ایک وزیر کو مستعفی ہونے کا کہا گیا لیکن ایک افسر جسے پہلےہی سے ریفرنس کا سامنا تھا اس کی ہٹانے کے بجائے وزارت میں اعلی عہدے پر تقرری کردی گئی۔ جب مختلف ٹاک شوز میں جب یہ موضوع زیر بحث آیا تو حکومت نے ارشد فاروق کو سیکریٹری قانون کے عہدے سے ہٹادیا۔

ارشد فاروق کا معاملہ بیورو کریسی میں کوئی اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ نہیں ہے کیونکہ قانون کے تحت نیب کے ملزمان پر کوئی عہدہ رکھنے پر پابندی نہیں ہے۔ ارشد فاروق کے دور میں نیب آرڈیننس میں تبدیلیوں سے کچھ لوگ خوش نہیں تھے جو عمر چیمہ کی خبر سے عیاں ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ ارشد فاروق کی جانب سے مجوزہ تبدیلیاں وہ تھیں جن پر عموماً سول بیورو کریسی اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اعتراض ہوا۔ ارشد فاروق نے کابینہ کے لئے نیب قوانین میں ترامیم کا مشودہ تیار کیا جسے غور کے بعد مختلف وزارتوں میں گردش دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

یہی نہیں ارشد فاروق نیب کے لئے بھی ایک بڑی رکاوٹ بن گئے جب انہوں نے وزیراعظم کے نام ایک رسمی سمری میں نیب میں گریڈ 22 کے چار ڈائریکٹرز جنرل کی تقرری کی سفارش کی۔ جب یہ سمری وزارت قانون میں پہنچی تو ارشد فاروق نے سوالات اٹھائے اور نیب کی تجویز میں خامی کی نشاندہی کی کہ کس طرح ڈائریکٹر جنرل کو گریڈ 22 دیا جاسکتا ہے۔ اسے ڈپٹی چیئرمین نیب کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے جو خود گریڈ 21 کا حامل ہے۔

ارشد فاروق نے نوٹ کیا کہ نیب ملازمین سرکاری ملازمین کے زمرے میں نہیں آتے۔ اس طرح نیب حکام کے لئے یہ ترقی پانے کا طریقہ کار ہوسکتا ہے۔ انہوں نے نیب کے تنظیمی ڈھانچے کے بارے میں بھی تفصیلات مانگیں تاکہ گریڈ 22 کے چار افسران کی ضرورت کا تعین کیا جاسکے۔

ارشد فاروق نے یہ بھی استفسار کیا کہ اگر گریڈ 22 کے چار منصب تخلیق کردیئے جائیں تو گریڈ 17 سے گریڈ 21 تک کے کتنے افسران کی ضرورت ہوگی۔

انہوں نے اس حو الے سے مالی مضمرات پر بھی سوالات اٹھائے اور پوچھا کہ اضافی اخراجات سے کیوں کر نمٹا جائے گا۔ چیئرمین نیب نے سمری وزیراعظم کو پیش کی ا ور کہا کہ پاکستان میں کسی بھی ادارے اور تنظیم کے مقابلے میں لاجواب اور بے مثال ہے۔ چیئرمین نیب کی دستخط سے تین صفحات پر مشتمل سمری میں ادارہ چاہتاہے کہ وزیراعظم بیورو کے ہیڈکوارٹر اسلام آباد میں ڈائریکٹر جنرل کی موجودہ اسامی کو گریڈ 21 سے ترقی دے کر گریڈ 22 کردیں۔

وزیراعظم کو باور کرانے کے لئے نیب نے فارن سروس آف پاکستان کا حوالہ دیا۔ جہاں گریڈ 22 کی 12 اسامیاں موجود ہیں۔ سمری میں سفارش کی گئی کہ گریڈ 22 میں ڈائریکٹرز جنرل نیب پارلیمانی کمیٹیوں اور بیرون ممالک اپنے ہم منصبوں سے باآسانی مکالمہ کرسکیں گے۔

دریں اثنا سابق سیکریٹری قانون نے ایک نیم عدالتی ادارے کی اس تجویز کی مخالفت کی کہ ایک افسر کو بھاری تنخواہ کے پیکیج کے ساتھ ایم پی ون اسکیل دے دیا جائے جو ایک بارسوخ شخصیت کا داماد ہے۔

وزارت قانون کے تحت ارشد فاروق کا موقف تھا کہ مذکورہ افسر کو قانون کے مطابق ڈیپوٹیشن الائونس دیا جاسکتا ہے لیکن وہ ایم پی ون اسکیل کے حق دار نہیں ہوں گے۔ 

مزید خبریں :