18 نومبر ، 2019
جسٹس عمرعطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےفل کورٹ بینچ نےجسٹس قاضی فائز عیسٰی اور دیگر کی جانب سے صدارتی ریفرنس کے خلاف آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی قانونی ٹیم کےرکن بابر ستار نے دلائل دیتے ہوئے کہا انکم ٹیکس قانون کےمطابق خود کفیل بیوی بچوں کے اثاثےظاہر کرنے کی کوئی شرط نہیں، ٹیکس فارم میں اپنے طور پر تبدیلی ممکن نہیں۔
دوران سماعت جسٹس عمرعطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم یہاں ویلتھ اسٹیٹمنٹ فارم دیکھنے نہیں بیٹھے، بنیادی سوال یہ ہے کہ رقم کہاں سےآئی؟
بابر ستارنے جواب دیا کہ سارا معاملہ ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کا ہے۔
اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے استفسار کیا کہ کیا قانون کےتحت وہ اثاثےظاہر کرنے کے پابند نہیں؟ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ جو اثاثے آپ کے نہیں آپ اسے کیسے ظاہر کرسکتے ہیں؟
جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ الزام یہ ہے کہ شاید منی لانڈرنگ کےذریعے اثاثے بنائے گئے۔
اس پر بابر ستار ایڈوکیٹ نے جواب دیا کہ بغیر شواہد الزامات لگائےگئے، صدر مملکت کے پاس ایسا کون سا مواد تھا؟
جسٹس منصورعلی شاہ کےاستفسار پر بابر ستار نے بتایا کہ ان کے مؤکل کو کوئی نوٹس نہیں بھیجا گیا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا پھر تو بات ہی ختم ہوگئی۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بیوی تو وزیر اعظم عمران خان کی طرح مالی طور پر خود مختار ہیں اور کیا انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے زیادہ ٹیکس ادا نہیں کیا؟
اس پر بابر ستار نے عدالت کو بتایا کہ ایسا ہی ہے ۔ کیس کی مزید سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کیلئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہوچکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرا دیا ہے، کونسل اٹارنی جنرل کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کردیا ہے۔