Time 21 نومبر ، 2019
پاکستان

میاں صاحب کے ساتھ گئے 14سوٹ کیسوں میں کیا؟

جھوٹ بولا جا رہا یا جعلی بیماریاں بتائی جا رہیں، کوئی مناسب بات نہیں لگتی: فوٹو جیونیوز

وزیراعظم نے کہا ’’کابینہ نے مجھے روکا مگر مجھے نواز شریف پر رحم آگیا‘‘، حضرت عمرؓ یاد آگئے، فرمایا’’جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے، وہاں بے گناہ بے رحمی سے مرتے ہیں‘‘، جیسے نواز شریف کیس اور سانحہ ساہیوال، جیسے نواز شریف کیس اور صلاح الدین قتل۔

اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑیوں سے جڑے کرکٹ گراؤنڈ میں واک کرتے ابھی دوسرا چکر بھی مکمل نہ ہوا تھا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہا ’’بھٹی صاحب! مبارک ہو‘‘ میں چلتا چلتا آہستہ ہوا، نیم اندھیرے میں اپنی دائیں جانب قدرے ناگواری سے دیکھا کہ کون بے تکلف ہو رہا، نظر پڑی، سامنے سابقہ بیورو کریٹ، پاک چین تھنک ٹینک کے روح رواں، شاعر، علم نجوم، تصوف، معرفت کے استاد، سابق وزیر، اپنے ہر فن مولا دوست ملک صاحب۔

میں نے رک کر زیرِ لب مسکراتے ملک صاحب کو جپھی ڈالتے ہوئے پوچھا ’’سر مبارک کس بات کی‘‘ بولے ’’میاں صاحب کے لندن جانے کی‘‘ میں نے ہنس کر کہا ’’پھر تو آپ کو بھی مبارک ہو، آپ کے تو میاں صاحب سابقہ باس‘‘، مجھے کھڑا دیکھ کر کہا ’’رکیں نہیں واک جاری رکھیں، باتیں، واک ساتھ ساتھ‘‘ ۔آتی سردیاں، عشاء کا وقت، ہلکی ہلکی ہوا، مسلسل بڑھتی خنکی، چاروں طرف درختوں میں گھرا کرکٹ گراؤنڈ، چند قدم ہی چلے تھے کہ ملک صاحب بولے ’’کیا میاں صاحب واقعی بیمار ہیں‘‘ میں نے حیران ہوکر ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا مطلب، آپ کو کوئی شک ہے، یہ بات تو حکومت بھی مان چکی۔

انہیں 12 بیماریاں، وہ روزانہ 17دوائیاں کھائیں اور...‘‘ میری بات کاٹ کر بولے ’’آپ نے لندن جاتے ان کی تصویریں دیکھی ہیں، کیا وہ 69 سال کے تشویشناک حد تک بیمار شخص لگ رہے ہیں، چلو یہ رہنے دیں کہ اگر بندہ تشویشناک حد تک بیمار ہو تو پاکستان میں اسپتال کے بجائے گھر کیوں رہے گا۔

وہ تشویشناک حد تک بیمار ہوگا تو لندن جاکر اسپتال کے بجائے اپنے گھر کیوں رہے گا، یہ بات بھی چھوڑیں، جو تشویشناک حد تک بیمار وہ بذریعہ دوحہ لندن کیوں جائے گا، ڈائریکٹ کیوں نہیں، یہ دیکھیں، تھری پیس سوٹ، مفلر گلے میں، چہرے پر بیماری کا رتی بھر اثر نہیں‘‘ ملک صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا ’’گو کہ میں نے میاں صاحب کی رپورٹیں دیکھیں نہ سرکاری ڈاکٹروں یا ذاتی معالج سے ملا، لیکن جب حکومت، ڈاکٹر، میاں صاحب کا خاندان اور سب لیگی کہہ رہے کہ وہ تشویشناک حد تک بیمار تو پھر یہ شک کرنا کہ وہ بیمار نہیں۔

جھوٹ بولا جا رہا یا جعلی بیماریاں بتائی جا رہیں، کوئی مناسب بات نہیں لگتی، اللّٰہ انہیں صحت دے۔۔۔‘‘ ملک صاحب نے ایک بار پھر میری بات کاٹی، کہنے لگے ’’بھائی جان سب کچھ پتا چل جائے گا، اب کوئی چیز چھپتی ہے نہ چھپائی جا سکتی ہے، تھوڑا سا انتظار بس، جیسے میاں صاحب کی لندن جاتے دو تصویروں نے تشویشناک حد تک بیمار کی قلعی کھول دی، ویسے ہی باقی بھی سب پتا چل جائے گا‘‘ ملک صاحب کی بات مکمل ہوئی تو میں نے کہا ’’ویسے اپنے ملک میں بھی کیا وقت آگیا کہ کوئی مر بھی رہا ہو مگر یار کہہ رہے ہوتے ہیں، ڈرامے کر رہا ہے‘‘۔

میری بات سن کر ملک صاحب پہلے ہنسے، پھر بڑے سنجیدہ لہجے میں راز دارانہ انداز میں بولے ’’یہ تو نہیں بتاؤں گا کہ میاں صاحب کے ساتھ گئے 14سوٹ کیسوں میں کیا، سب سوٹ کیس لندن پہنچے یا کہیں اور، لیکن یہ سن لیں، اب حسین نواز میڈیا پر ایکٹیو ہو جائیں گے جبکہ مریم نواز پس پردہ چلی جائیں گی۔

شہباز شریف پاکستان، برطانیہ میں شٹل کاک بنیں گے، میاں صاحب کا بیرونِ ملک قیام اندازوں سے زیادہ ہوگا اور آخرکار مریم نواز بھی چلی جائیں گی‘‘، اس سے پہلے ملک صاحب کوئی اور بات کرتے میں نے ان کی بات کاٹی اور قدرے ترش لہجے میں کہا، سر پلیز! اب میاں صاحب کا اور ذکر نہیں، اب ہم اپنی باتیں کریں گے، یقین کریں، میاں صاحب، میاں صاحب بول بول زبان پر چھالے پڑ گئے۔

میاں صاحب، میاں صاحب سن سن کان پک گئے، میاں صاحب، میاں صاحب سازشی تھیوریوں نے دماغ کی دہی نہیں چٹنی بنا دی، میاں صاحب یہ خبر، میاں صاحب وہ خبر، یہ بریکنگ نیوز، وہ اسپیشل ٹرانسمیشن، اب تو بس ہوگئی، سر صورتحال ملاحظہ کریں، کل ایک ٹی وی چینل میاں صاحب کی ائیر ایمبولینس کے اندرونی مناظر دکھا دکھا تبصر ے فرما رہا تھا۔

وہ دیکھئے میاں صاحب بیٹھے ہوئے، وہ دیکھئے میاں صاحب کوٹ اتار کر بیٹھے ہوئے، وہ دیکھئے میاں صاحب کے گلے میں مفلر، وہ دیکھئے میاں صاحب ہاتھ کا اشارہ کر رہے، لگتا ہے کہ کچھ کہنا چاہ رہے، وہ دیکھئے وہ ہیں میاں صاحب، میری رننگ کمنٹری سن کر ملک صاحب نے پہلے اوپر تلے قہقہے مارے، پھر واکنگ ٹریک کے گیٹ کے قریب پہنچ کر رکے، لمحہ بھر کیلئے سانسیں درست کیں۔

بولے، مزیدار بات سنو، ایک ملزم نے ایک مجرم کی ضمانت دی، ضمانت منظور ہوئی، ملزم، مجرم لندن پہنچے، آگے عدالتی مفروروں نے ریسیو کیا جبکہ ریاستِ مدینہ والے وزیراعظم کو اس سب پراسیس پر رحم آرہا‘‘ یہ کہہ کر ملک صاحب نے ایک پُرجوش جپھی ڈالی، اگلے ہفتے کھانے یا کافی پر ملنے کا وعدہ لیا، پارکنگ کی طرف چل پڑے۔

دوستو، اپنی ڈیلوں، ڈھیلوں بھری سیاسی تاریخ، ڈیلوں، ڈھیلوں سے لبالب بھرے اپنے سیاستدانوں کو دیکھ، بھگت کر بھی یہ نہیں کہوں گا کہ میاں صاحب بیمار نہیں یا کوئی ڈیل، ڈھیل کا چکر، یہ میری عدالتوں کا فیصلہ، مجھے اپنی عدالتوں کا ہر فیصلہ قبول، ہاں یہ دکھ ضرور کہ میرے ملک میں اب اچھائی، برائی کا فرق مٹ گیا، اب میرے ملک میں غریب جس کی کوئی جان پہچان، سفارش، پرچی نہ ہو وہ کاکروچ، دکھ یہ بھی، اب میرے ملک میں لوگ بڑے فخریہ انداز میں مجرموں کو ہار پہنائیں، ریلیف ملنے پر مٹھائیاں اور دکھ یہ بھی کہ تبدیلی لانے اور دو نہیں ایک پاکستان کے خواب دکھانیوالا وزیراعظم کوٹ لکھپت جیل سے ایون فیلڈ فلیٹس لندن کے اس انوکھے سفر پر فرمائے ’’کابینہ نے تو مجھے روکا مگر مجھے نواز شریف پر رحم آگیا‘‘۔

حضرت عمرؓ یاد آ رہے، فرمایا ’’جو ریاست مجرموں پررحم کرتی ہے، وہاں بے گناہ بے رحمی سے مرتے ہیں‘‘، جیسے نواز شریف کیس اور سانحہ ساہیوال، جیسے نواز شریف کیس اور صلاح الدین قتل۔

مزید خبریں :