25 نومبر ، 2019
ناروے میں آزادیٔ رائے کے نام پر ایک اسلام دشمن شر پسند نے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ناپاک جسارت کی تو اُسے روکنے کے لیے وہاں موجود الیاس نامی ایک مسلمان نوجوان شیر کی طرح اُس شیطان پر لپکا۔
الیاس کو پولیس نے فوری گرفتار کر لیا لیکن اس قابلِ فخر نوجوان کی لمحوں بھر کی کارروائی نے اسلام دشمن شر پسند کا قابلِ مذمت فعل بھی اُس طرح مکمل نہ ہونے دیا جس طرح وہ خواہش رکھتا تھا۔
اس واقعہ کی وڈیو منٹوں میں دنیا بھر میں وائرل ہو گئی جس سے اگر ایک طرف مغرب کی اسلام دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی تو دوسری طرف مسلمان نوجوان الیاس پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک قابلِ فخر ہیرو بن کر ابھرا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس نوجوان کے عمل کو دل کھول کر سراہا لیکن سوائے ترک صدر طیب اردوان کے‘ اسلامی دنیا کے حکمران خاموش رہے۔
سوشل میڈیا کے بھرپور ردّعمل کے نتیجے میں گزشتہ روز دفتر خارجہ پاکستان نے بھی ناروے کے سفیر کو طلب کرکے واقعے پر شدید احتجاج کیا جبکہ پاک فوج کے ترجمان نے بھی ملعون شخص کو روکنے والے نوجوان کو سلام پیش کیا۔
سوشل میڈیا کے ذریعے جہاں ناروے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ فوری طور پر مسلمانوں کے ہیرو الیاس کو رہا کیا جائے، وہیں سوال اٹھائے گئے کہ مسلمان حکمران اور ہمارا میڈیا اس مسئلے میں خاموش کیوں رہا اور اُس ہیرو کو کیوں نہیں سراہا گیا جس نے پوری امتِ مسلمہ کے جذبات کی دلیرانہ انداز میں بہترین ترجمانی کی۔
سوشل میڈیا پہ کسی نے بہت خوب لکھا: ’’ایک بات کہوں، مارو گے تو نہیں؟ 40 اسلامی ممالک کا اتحاد اور ان کے رہنما میرے لیے اس نوجوان (الیاس) کی پاؤں کی جوتی کے برابر بھی نہیں‘‘۔ بالکل درست کہا! ہمارا ایسے اتحاد اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں سے کیا لینا دینا اور اُن سے ہماری کیا ہمدردی ہو سکتی ہے جب مغرب میں آزادیٔ رائے کے نام پر آئے دن بے حرمتی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور اُنہیں روکنے کے لیے نہ یہ اتحاد کچھ کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے حکمران کوئی عملی قدم اٹھا رہے ہیں۔
تقریر تو ہمارے وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں بہت اچھی کی تھی اور مغرب کے دُہرے معیار اور آزادیٔ رائے کے نام پر بے حرمتی اور اسلام دشمن اقدامات کی اجازت دینے کی پالیسی کی بھی مذمت کی تھی لیکن عملی طور پر کیا ہوتا ہے، اُس کا سب کو انتظار ہے۔
ویسے تقریریں تو کشمیر کے حق میں بھی بہت اچھی کی گئیں لیکن عملی طور پر جو ہمیں کرنا چاہیے وہ ہم کر نہیں رہے۔ ہم کشمیر کو بھارتی تسلط اور اُس کے مظالم سے کیسے آزاد کروا رہے ہیں، اس کی حالیہ مثال ملاحظہ فرمائیے۔ پنجاب حکومت کی طرف سے ’’اظہارِ یکجہتی ٔ کشمیر‘‘ کے لیے اشتہار شائع کیے گئے جن کے مطابق:
’’کشمیر کے نہتے اور معصوم عوام پر جاری بھارتی ظلم و بربریت کو بین الاقوامی سطح پر نئے انداز میں اجاگر کرنے کے لیے حکومت پنجاب کے زیر اہتمام نامور بینڈز کے ساتھ میوزیکل نائٹ کا انعقاد مورخہ 24 نومبر 2019ء، شام 5بجے، بمقام گورنر ہاؤس مال روڈ لاہور۔ عوام اور حکومت پنجاب کشمیری عوام کی جدوجہد ِ آزادی کی حمایت میں افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘‘۔
اس اشتہار کو پڑھ کر سر شرم سے جھک گیا کہ دیکھیں ہم کشمیر کو آزاد کروانے کے لیے ناچ اور گانے بجانے پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کشمیر کو آزاد کروانے کے اس گھٹیا طریقے پر حکومت کو کافی لے دے کا سامنا کرنا پڑا جس پر یہ کنسرٹ منسوخ کر دیا گیا۔
کشمیر کو آزاد کروانا ہے تو ناچنے گانے والوں کے بجائے مسلمانوں کے ہیرو الیاس کے جنون اور جذبہ کی تقلید کرنا ہو گی۔ حال ہی میں پاکستان کی ایک گلوکارہ نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے محکمہ دفاع کے ایک اہم ادارے کے اندر کشمیر کے حوالے سےاپنے ایک کنسرٹ کا حوالہ دیا تو سوشل میڈیا پر شور مچنے کے بعد اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
ناروے کے واقعے کے دنوں میں ہی آسٹریلیا کے ایک ریسٹورنٹ میں ایک آسٹریلوی شدت پسند نے وہاں موجود تین مسلمان خواتین سے بحث کے بعد ایک باپردہ حاملہ مسلمان خاتوں پر لاتوں اور گھونسوں سے حملہ کر دیا۔ اس ظلم کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی اور ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی کہ نائن الیون کے بعد کی امریکہ و یورپ کی اسلام مخالف پالیسیوں کی وجہ سے مسلمان مغرب میں بہت غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔
مغرب مسلمانوں کو شدت پسند کے طور پر پیش کرتا رہا لیکن اب آئے روز امریکہ و یورپ میں رونما ہونے والے واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ مغربی معاشرے ایسی شدت پسندی کی طرف سے تیزی سے گامزن ہیں جہاں نفرت، تشدد، نسلی پرستی اور مذہبی تعصب خوب تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں اور یہ خود ان معاشروں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی نفرت اور مذہبی تعصب کو پروان چڑھا رہا ہے جو بھارت کو دیمک کے طرح اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ مغرب اور بھارت کی اس نفرت انگیزی کے برعکس دنیا بھر میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دیں جو امن، مذہبی رواداری، حسن سلوک اور مظلوم کی حمایت کا درس دیتی ہیں، چاہے اس کے لیے فوجی طاقت یعنی جہاد کی ضرورت ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)