30 نومبر ، 2019
مولانا فضل الرحمٰن جب سے پلان بی، سی کے نام سے دھرنا سمیٹ کر رخصت ہوئے ہیں وزیراعظم کے استعفے کے بجائے ملک میں نئے انتخابات کے مطالبے کو دہرائے جا رہے ہیں اور تو اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
مولانا جس یقین دہانی کی بنیاد پہ اسلام آباد سے واپس گئے، اس کی تفصیلات سے انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے شرکا کو باضابطہ آگاہ بھی کر دیا ہے جس کے مطابق انہیں اپریل تک ملک میں نئے الیکشن کرانے کی ضمانت دی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے منعقد کی گئی حالیہ اے پی سی میں ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کو ترک کر کے اب صرف ملک میں فوری طور پہ نئے اور شفاف الیکشن منعقد کرانے کے مطالبے پہ سختی سے کاربند رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو سمیت اے پی سی میں شریک اپوزیشن رہنما بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں الیکشن کمیشن نامکمل ہے جس کے سندھ اور بلوچستان سے دو ارکان کی مہینوں گزر جانے کے باوجود تقرری ممکن نہیں ہو سکی، اس ناکامی کی وجہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ہے، معاملہ عدالت سے ہو کر واپس انہی سیاستدانوں کے پاس پہنچ چکا ہے جبکہ اب چیف الیکشن کمشنر بھی چند دنوں میں ریٹائرڈ ہونے والے ہیں تو جو قانون ساز نو ماہ میں الیکشن کمیشن کے دو ارکان کا تقرر نہیں کرسکے وہ اس کے سربراہ کی تعیناتی پہ کیسے جلد متفق ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف انتخابی اصلاحات پہ رتی برابر بھی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے، اس ضمن میں جو انتخابی کمیٹی قائم کی گئی تھی وہ بھی دس ماہ سے ٹی او آرز پہ اتفاق نہ ہونے کے باعث غیر فعال ہے۔ اب ہم آئین پاکستان کا جائزہ لیتے ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات کیسے ممکن ہو سکتے ہیں۔
آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت اپوزیشن بیس فیصد ارکان کے دستخطوں سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کر سکتی ہے اور ذیلی شق سات کے تحت اگر قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت اس قرارداد کو منظور کر لے تو وزیراعظم اپنے عہدے پہ قائم نہیں رہیں گے۔
اتحادی جماعتوں کی عددی اکثریت کو مدِنظر رکھا جائے تو فی الحال یہ کسی طور ممکن نہیں ہے تاہم خوش فہمی کی حد تک ایسا تصور بھی کر لیا جائے تو اس صورت میں تحریک انصاف نئے قائدِ ایوان کا انتخاب کرنے کا استحقاق رکھتی ہے۔
یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ تحریک انصاف اپنی جماعت میں سے کسی دوسرے امیدوار کو بھی اعتماد کا ووٹ دلانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو پھر صدرِ مملکت آئین کے آرٹیکل 48کے تحت اپنی صوابدید پہ قومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتے ہیں، اس صورت میں ملک میں نئے انتخابات ممکن ہو سکتے ہیں۔
اسی طرح وزیراعظم صدرِ مملکت کی خوشنودی تک اپنے عہدے پہ برقرار رہ سکتا ہے اور اگر صدرِ مملکت تصور کریں کہ وزیراعظم ایوان کی اکثریت کا اعتماد کھو چکا ہے تو وہ اسے آئین کے آرٹیکل 91 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا کہیں گے اور ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں وزیراعظم فارغ ہو سکتا ہے لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ایسا سوچ سکتے ہیں یہ تصور بھی محال ہے۔
آئین کے اسی آرٹیکل کی شق آٹھ کے تحت وزیراعظم اپنے ہاتھ سے خود استعفیٰ تحریر کر کے صدر کو بھیج سکتا ہے جس سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب خالی ہو جائے گا اور پھر اس پہ انتخاب اور اس میں ناکامی کی صورت میں نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکتا ہے تو یہ توقع رکھنا کہ وزیراعظم عمران خان خود استعفیٰ دیں، دن میں خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔
آئین کے آرٹیکل 63کی شق الف کی 16ذیلی دفعات ایسی ہیں جن پر پورا نہ اترنے کی صورت میں وزیراعظم کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم ہو سکتی ہے جبکہ شق 2 کے تحت اسپیکر کے سامنے ان کی اہلیت کا سوال اٹھے تو وہ 30دن میں فیصلہ کر کے الیکشن کمیشن کو آگاہ کرے گا اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاملہ از خود الیکشن کمیشن کو ارسال کردہ تصور کیا جائے گا۔
ایک آئینی طریقہ یہ بھی ہے کہ صدر مملکت آرٹیکل 58کے تحت قومی اسمبلی کو تحلیل کردیں لیکن یہ بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار ختم ہو چکا۔ اجتماعی استعفوں کے آپشن پہ اپوزیشن کو خوف ہے کہ دوبارہ انہی نشستوں پہ الیکشن کرا دئیے جائیں گے۔
اپوزیشن کے نئے انتخابات کے مطالبے کی ایک وجہ الیکشن کمیشن میں زیرِ سماعت تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس بھی ہے لیکن اگر اپوزیشن کی توقعات کے عین مطابق فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف بھی ہو جائے تو بھی بطور سیاسی جماعت اسے تحلیل کرنے کا اختیار وفاقی حکومت کا ہی ہے۔
وفاقی حکومت غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہونے کی صورت میں کسی سیاسی جماعت کے خلاف ڈیکلیریشن کو آفیشل گزٹ میں شائع کرے گی اور پندرہ دن کے اندر ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجے گی، سپریم کورٹ سے اس ریفرنس کو درست قرار دیے جانے پر وہ سیاسی جماعت تحلیل ہو جائے گی لیکن الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ کے کیس میں خلاف فیصلہ آنے پر بھی کیا تحریک انصاف کی حکومت اپنی ہی جماعت کو تحلیل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجے گی، یہ سوچنا بھی پاگل پن ہے۔
اس لیے آئین میں درج تمام طریقہ ہائے کار اور موجودہ زمینی حقائق کی روشنی میں اپوزیشن کا ملک میں فوری طور پہ نئے انتخابات کا مطالبہ غیرحقیقی ہے جس کے حقیقت کا روپ ڈھالنے کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتوں کی اکثریت اس کا ساتھ چھوڑ جائے۔ اور یہ اتحادی کیا ان کے اشارے پہ حکومت کا ساتھ چھوڑیں گے جنہوں نے مولانا کو اپریل میں نئے الیکشن کے انعقاد کی ضمانت دی ہے؟