سرفروشی کی تمنا

فوٹو: فائل

ایک نوجوان لڑکی نے ’سرفروشی کی تمنا‘ کا نعرہ کیا لگایا، بازوئے قاتل نے زور لگانا شروع کر دیا۔ تحقیقات شروع ہو گئیں کہ معلوم کیا جائے کہ کون ہے یہ گستاخ، اور آخر میں جب نوجوان سڑکوں پر آئے تو ریاست مخالف تقاریر کا جواز بنا کر مقدمات بنا دیے گئے۔ یہی ہوتا آیا ہے، 72سالوں میں، آخر طلبہ کی سوچ پر پابندی ایسے ہی تو نہیں لگائی تھی 1984میں۔

 حیرانی صرف ان دانشوروں پر ہوتی ہے جو سوچ پر، پابندی کی حمایت کرتےہیں۔ طلبہ یونین پر پابندی لگی تو مقابلے کا رجحان بھی جاتا رہا۔ کیا پابندی کے 35سالوں میں تعلیمی اداروں میں تشدد ختم ہوا یا بڑھا؟ مثبت تبدیلی آئی یا منفی رجحانات نے جگہ لی؟ تاہم حالیہ طلبہ مارچ کے نتیجے میں اتنا ضرور ہوا کہ ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا کہ طلبہ یونین کے انتخابات ضروری ہیں یا نہیں۔

 کیا اس مارچ کے شرکا کی یہ کامیابی کم ہے کہ وزیراعظم عمران خان بھی اس کے حق میں نظر آئے اور فواد چوہدری بھی۔ سندھ حکومت نے تو قانون سازی بھی شروع کر دی ہے۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے یقین دلایا کہ وہ انتخابات کرانے جا رہے ہیں۔

چلیں آئیں! پہلے یونین پر پابندی سے پہلے کے پاکستان کا جائزہ لے لیتے ہیں پھر اس بات پر غور کریں گے کہ 1977کے مارشل لا کے بعد یہ اچانک کالج اور جامعات میں اسلحہ کی فراوانی کیسے شروع ہوئی اور کچھ گروپوں کو جدید اسلحہ سے لیس کیا گیا، پھر کیا تھا پُرتشدد واقعات شروع ہو گئے اور کئی طالبعلم جاں بحق ہوئے۔ اصل مقصد طلبہ کی جمہوری سوچ کو بدلنا تھا وگرنہ یہی تنظیمیں 1977سے پہلے الیکشن بھی لڑتی تھیں اور ماحول بھی مجموعی طور پر پُرامن رہتا تھا۔

طلبہ کی تین بڑی تحریکیں مجھے بھی یاد ہیں۔ سب سے پہلے فیسوں میں اضافے کے خلاف 1953میں تحریک چلی، جس کے نمایاں لوگوں میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور ڈاکٹر سرور جیسے لوگ شامل تھے۔ کراچی میں پولیس کی فائرنگ سے 8 طالبعلم جاں بحق ہوئے مگر تحریک جاری رہی۔ اس میں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم PSFکا نمایاں کردار تھا۔

دوسری بڑی تحریک NSFنے جنرل ایوب کے دور (1963ء) میں چلائی، یہ تحریک دو سال کے بجائے تین سالہ ڈگری کورس کے خلاف تھی۔ اس کا زیادہ زور کراچی میں تھا جس کی پاداش میںNSFکے 12طالب علموں کو کراچی بدر کر دیا گیا جن میں معراج محمد خان، فتحیاب علی خان، امیر حیدر کاظمی، حسین نقی، واحد بشیر، آغا جعفر، نواز بٹ، خرم مرزا، سعید سیّد حسن، علی مختار رضوی، جوہر حسین اور نفیس صدیقی شامل تھے۔

 یہی نہیں پنجاب نے بھی کئی طالب علم رہنمائوں کو پیدا کیا جن کا تعلق دائیں اور بائیں بازو دونوں سے تھا، ان میں ایک نمایاں نام مخدوم جاوید ہاشمی کا تھا جو ایک زمانے میں مولانا بھاشانی کے ساتھ بھی رہے۔ جہانگیر بدر، لیاقت بلوچ اور کئی دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔ بقول جماعت اسلامی کے سابق امیر سیّد منور حسن کے، جو ایک زمانے میں بائیں بازو میں بھی رہے ’مخالف بیانیہ موجود ہو تو مقابلے کا مزہ اور ہوتا ہے‘، پاکستان میں طلبہ سیاست نے بڑے بڑے رہنما پیدا کئے ہیں۔

کیا 1947سے 1977تک کے تشدد کے ایسے واقعات ہوئے، 1977کے بعد جو دیکھنے کو ملے اور صورتحال قابو سے باہر ہو گئی؟ 977 میں مارشل لاء لگتا ہے تو تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں، بھٹو کی پھانسی کے خلاف احتجاج شروع ہوتا ہے تو ایک بار پھر کالجوں اور جامعات کو بند کر دیا جاتا ہے۔

12اگست 1979کو پہلی بار جامعہ کراچی میں جدید اسلحہ کا استعمال ہوا جس سے 18طالبعلم زخمی ہوئے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ایک منظم سازش کے تحت کچھ گروپوں کو مسلح کیا گیا اور یونین کے الیکشن میں اسلحہ استعمال کیا گیا، اسی کو بنیاد بنا کر 1984میں ایک مارشل لا آرڈر کے تحت طلبہ یونین کے انتخابات پر پابندی عائد کر دی گئی۔

 طلبہ ایکشن کمیٹی نے اس پابندی کے خلاف ایک منظم تحریک چلائی جو تین ماہ جاری رہی۔ جب تحریک اپنے عروج پر تھی تو اچانک اسلامی جمعیت طلبہ جو ملک بھر میں ایک منظم جماعت ہے، اس سے باہر آ گئی۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد مرحوم نے اچانک بیان جاری کیا کہ اور جمعیت نے نہ چاہتے ہوئے بھی تحریک کا ساتھ چھوڑ دیا۔ 

بعد میں طلبہ تنظیمیں تو اپنی جگہ موجود رہیں، متحرک بھی رہی مگر یونین کے انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے منفی رجحانات فروغ پانے لگے۔ یونین الیکشن ہوتے تھے تو ایک واقعہ بھی الیکشن میں اس گروپ کے مارنے کا باعث بن جاتا تھا جو تشدد میں ملوث ہوتا تھا۔ پابندی کے باوجود یہ خوف بھی جاتا رہا، پھر تو مختلف گروپوں نے اپنے عسکری ونگ بنا لیے۔

یونین پر پابندی سے پہلے کا پاکستان دیکھ لیں اور اس کے بعد کا بھی، ایک خاص سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے جنرل ضیاء الحق مائنڈ سیٹ نے پورے معاشرے میں تشدد، عدم برداشت، اور انتہا پسندی کو فروغ دیا، آج بھی ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن ہو رہا ہے مگر اسلحہ کے خلاف کوئی منظم آپریشن نہیں ہوا۔ قیام پاکستان کی تحریک سے آمریت کے خلاف چلنے والی تحریکوں تک، طلبہ تنظیموں کا نمایاں کردار رہا۔ مقابلے کا رجحان ختم کر دیا جائے تو طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔ منفی سوچ اور رجحانات کے ساتھ ہی پروان چڑھنا ہے تو پابندی برقرار رکھیں۔

 30سال کے نتائج سامنے ہیں، آگے بڑھنا ہے تو سوچ بدلنا ہوگی۔ یہ بات ان طلبہ تنظیموں اور جماعتوں کو بھی سوچنا ہوگی کہ مخالف بیانیہ سامنے ہو تو مقابل کا مزہ آتا ہے ورنہ پھر وہی ہوتا ہے جو مشال خان اور APSکے بچوں کے ساتھ ہوا۔ سرفروشی کی تمنا بہرطور دل میں رہے گی۔

مزید خبریں :