12 دسمبر ، 2019
بات ہو رہی تھی صحافت پر پابندیوں کی اور میں نے ذکر چھیڑ دیا طلبہ یونینز پر لگائی گئی پابندیوں کا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک بہت بڑے مجمع میں وہ طلبہ و طالبات بھی شامل ہیں جنہوں نے کچھ دن پہلے پاکستان کے مختلف شہروں میں بسمل عظیم آبادی کے اس مشہور شعر کو بطور نعرہ بلند کیا تھا؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
کراچی آرٹس کونسل کے لان میں عالمی اردو کانفرنس کے شرکاء میں اکثریت شاعروں، ادیبوں، فنکاروں اور صحافیوں کی تھی۔ رش بہت تھا اس لئے بائیں طرف بہت سے لوگ کھڑے ہو کر عاصمہ شیرازی کے باغیانہ سوالات اور میرے گستاخانہ جوابات سُن رہے تھے۔
جب میں نے یہ کہا کہ ہمارے اہلِ فکر و دانش میں برداشت کم ہو گئی ہے، پچھلے دنوں کچھ طلبہ نے اپنے جمہوری حقوق کے لئے آواز بلند کی تو بہت سے کالم نگاروں نے اُنہیں ملک اور اسلام دشمن قرار دے دیا۔ ان طلبہ کا قصور صرف یہ تھا کہ اُنہوں نے لال پرچم اُٹھا کر یہ نعرہ لگایا ’’جب لال لال لہرائے گا تو ہوش ٹھکانے آئے گا‘‘۔ میری بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ایک نسوانی آواز میں یہ نعرہ بائیں طرف سے گونجنے لگا اور بہت سی مردانہ آوازوں نے نعرے کا جواب دینا شروع کر دیا۔
اس سیشن کی میزبان عاصمہ شیرازی نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔ میں اپنی گفتگو میں ہونے والی اس مداخلت پر مسکرا رہا تھا۔ شرکاء میں ہر مکتب ِ فکر کے لوگ موجود تھے لیکن ان نعروں کو برداشت کیا گیا۔ کشور ناہید صاحبہ نے مائیک ہاتھ میں لے کر کہا کہ صرف نعروں سے کام نہیں چلے گا، کچھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے اور پھر اُنہوں نے ایک باغیانہ نظم سنا کر عملی قدم اُٹھا دیا۔
’’لال لال‘‘ نعرے لگانے والوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ بھی اتنے ہی مسلمان اور پاکستانی ہیں جتنے سبز نعرے لگانے والے ہیں۔
جن محبانِ وطن اور سرفروشانِ اسلام نے ’’لال لال‘‘ نعرے لگانے والوں پر غداری اور کفر کے فتوے لگائے، اُن میں سے اکثر یہ طعنہ زنی کرتے رہے کہ سوویت یونین کے زوال کے بعد سُرخ انقلاب ختم ہو چکا اور اب اسلام کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اُنہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جس طرح اسلام کے نام لیواؤں نے آج کل اسلام کو بدنام کر رکھا ہے اسی طرح مارکس اور لینن کے نظریات کا نام استعمال کر کے اسٹالن نے سوویت یونین میں آمریت قائم رکھی تھی جو لال لال نظر آتی تھی لیکن کمیونزم اور سوشلزم سے بہت دور تھی۔
آج آپ کو چین کا پرچم بھی لال لال نظر آتا ہے لیکن وہاں سوشلزم نہیں ہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے۔ مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ ’’لال لال‘‘ نعرے لگانے والوں سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ بھی اتنے ہی مسلمان اور پاکستانی ہیں جتنے سبز نعرے لگانے والے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اسلام کے کون کون سے نام لیواؤں نے تحریکِ پاکستان کی مخالفت کی اور کس کس نے علامہ اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ پر کفر کے فتوے لگائے؟ آج بھارت میں کانگریس کی قیادت کھلم کھلا اعتراف کر رہی ہے کہ محمد علی جناحؒ 72سال کے بعد سچا ثابت ہو گیا۔ 72سال پہلے قائداعظمؒ کی مسلم لیگ کے پرچم کا رنگ سبز تھا اور لال لال نعرے لگانے والے مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے تھے۔
تاریخ بڑی ظالم چیز ہے۔ پاکستان کے معروف کمیونسٹ دانشور عبداللہ ملک نے اپنی آپ بیتی ’’پرانی محفلیں یاد آ رہی ہیں‘‘ میں لکھا ہے کہ 23مارچ 1944ء کو مسلم لیگ نے یومِ پاکستان منانے کا فیصلہ کیا تو کمیونسٹ پارٹی کے اخبار ’’قومی جنگ‘‘ میں سجاد ظہیر نے ’’پاکستان کیوں بنے‘‘ کے عنوان سے ادریہ تحریر کیا۔
ایک اور کمیونسٹ رہنما ڈاکٹر محمد شاد نے ’’قومی جنگ‘‘ میں مضمون لکھا کہ ہر محبِ وطن کو قائداعظمؒ کی حمایت کرنی چاہئے۔ کمیونسٹوں کا خیال تھا کہ محمد علی جناحؒ کی اصل لڑائی کانگریس کے ساتھ نہیں بلکہ سامراج کے خلاف ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی مرکزی کمیٹی کے رکن سجاد ظہیر پنجاب آئے اور یہاں اپنے مسلمان ساتھیوں سے کہا کہ آپ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں لہٰذا عبداللہ ملک، دانیال لطیفی اور عطاء اللہ جہانیاں مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔
ایک سینئر مسلم لیگی رہنما ممتاز دولتانہ ان کمیونسٹوں کو اپنے ساتھ سرینگر لے گئے جہاں دانیال لطیفی اور عبداللہ ملک نے پنجاب مسلم لیگ کا منشور تیار کیا اور اسی منشور پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں کانگریس اور یونینسٹ پارٹی کو شکست دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کانگریس کے حامی کچھ علما نے علامہ اقبالؒ پر تنقید کی تو ’’قومی جنگ‘‘ نے اقبالؒ کا دفاع بھی کیا۔
’’قومی جنگ‘‘ کے یہ اداریے عبدالرئوف ملک کی کتاب ’’سرخ سیاست‘‘ میں محفوظ ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد قائداعظمؒ بہت جلد وفات پا گئے اور مسلم لیگ نے کمیونسٹوں کو پارٹی سے نکال دیا۔ انہوں نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان بنائی تو اس پر پابندی لگا دی گئی۔ فیض احمد فیضؔ اور حبیب جالبؔ جیسے شاعروں کو بار بار جیلوں میں ڈالا گیا۔ ان شاعروں کی سیاست کامیاب نہیں ہوئی لیکن ان کے نظریات ان کی شاعری میں آج بھی زندہ ہیں اور اسی لئے آج بھی نوجوان فیض میلے میں سرفروشی کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں اور یہ تمنا پورے ملک میں پھیل جاتی ہے۔
لال رنگ صرف کمیونزم کی نمائندگی نہیں کرتا۔ ہر سال یومِ مئی پر دنیا بھر کے مزدور لال پرچم اٹھاتے ہیں اور ان مزدوروں کی یاد مانتے ہیں جنہوں نے شکاگو میں اپنے سینوں پر گولیاں کھائی تھیں۔ لال لال نعرے دراصل مزاحمت اور سرفروشی کی تمنا کا اظہار کرتے ہیں۔ سرفروشی کی تمنا کا نعرہ لگا کر پھانسی پر لٹکنے والا بھگت سنگھ کمیونسٹ تھا۔ وہ کمیونسٹ انقلاب نہیں لا سکا لیکن وہ انقلاب اور مزاحمت کی علامت کے طور پر زندہ ہے۔ اگر آج کچھ نوجوان پھر سے سرفروشی کی تمنا کو اپنا نعرہ بنا رہے ہیں تو اُن پر فتوے لگانے کے بجائے سوچیں کہ اس نعرے کا محرک کیا ہے؟
پاکستان کی سیاست میں لال نعرے لگانے والوں نے وہی غلطیاں کیں جو ایشیا کو سبز بنانے کے دعویداروں نے کیں
لال رنگ سے اتنی نفرت اچھی نہیں کیونکہ ہم سب کے خون کا رنگ بھی لال ہے۔ زندگی میں ان دونوں رنگوں کی اپنی اہمیت ہے۔ پاکستان کی سیاست میں لال نعرے لگانے والوں نے وہی غلطیاں کیں جو ایشیا کو سبز بنانے کے دعویداروں نے کیں۔ دونوں کی ناکامی کا مطلب یہ نہیں کہ دونوں کا نظریہ ناکام ہو گیا، یہ دونوں کسی بھی وقت نئے انداز اور نئے طریقوں سے نظریاتی سیاست کو زندہ رکھنے کی سکت رکھتے ہیں۔
غیر نظریاتی سیاسی جماعتوں کی ناکامیوں سے پیدا ہونے والا خلا صرف اور صرف نظریاتی جماعتیں ختم کر سکتی ہیں لہٰذا نظریاتی نعرے لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے کیونکہ لال اور سبز مل کر بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔
آج پوری دنیا میں ٹریفک کا نظام لال بتی اور سبز بتی کے ساتھ چلتا ہے۔ لال رنگ صرف خطرے کا نشان نہیں ہے بلکہ یہ ٹریفک سگنل پر آپ کو روک دیتا ہے جبکہ سبز بتی آپ کا راستہ کھول دیتی ہے۔ اگر آپ ہر طرف سرخ بتیاں لگا کر سب کچھ روک دیں گے اور پابند کر دیں گے تو پھر نوجوان احتجاج کریں گے لہٰذا نوجوانوں کے نعروں میں لال رنگ کو وارننگ سمجھئے اور نوجوانوں کو دھتکارنے کے بجائے انہیں وہ حقوق اور آزادیاں دیدیں جو وہ مانگ رہے ہیں، بغاوت کے مقدموں سے بھگت سنگھ جنم لیتا ہے جو پھانسی کے بعد اپنے قاتلوں کیلئے ہمیشہ کیلئے سرخ بتی بن کر جلتا بجھتا رہتا ہے۔