Time 16 دسمبر ، 2019
پاکستان

' آرمی چیف کے عہدے کا اہم پہلوکسی قانون کے دائرے میں نا آنا آئین کی روح کےمنافی ہے'

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس کے ساتھ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ وہ ساتھی جج سید منصورعلی شاہ کے فیصلے سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے اضافی نوٹ میں لکھا ہے کہ مخصوص تاریخ کے تناظر میں آرمی چیف کاعہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے، آرمی چیف کا عہدہ لامحدود اختیار اور حیثیت کا حامل ہوتا ہے، غیر متعین صوابدید خطرناک ہوتی ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شرائط و ضوابط کاکسی قانون میں ذکر نا ہونا تعجب انگیز تھا، آئین کے تحت صدر کے مسلح افواج سے متعلق اختیارات قانون سے مشروط ہیں۔

اپنے اضافی نوٹ میں چیف جسٹس نے لکھا ہے کہ آرمی چیف کے عہدے کا اہم پہلو کسی قانون کے دائرے میں نا آنا آئین کی بنیادی روح کے منافی ہے، پارلیمنٹ کی آرمی چیف کے عہدے سے متعلق قانون سازی غلطیوں کی تصحیح میں مددگار ہو گی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ماہ 28 نومبر کو  آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع کی منظوری دی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے آج کیس کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے جو کہ 39 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہمارے سامنے مقدمہ تھا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع کی جاسکتی ہے؟ سماعت کے پہلے روز درخواست گزار عدالت میں پیش نہیں ہوا، درخواست گزار اگلی سماعت پر عدالت میں حاضر ہوا۔

 فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع دی گئی، وزیراعظم کو ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا آئینی اختیار حاصل نہیں ہے، 3 سال کی توسیع کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اگر قانون نا بن سکا تو چھ ماہ میں جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو جائیں گے، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے معاملے کو بے ضابطہ نہیں چھوڑیں گے، اگر 6 ماہ تک ایسا نا ہو سکا تو صدر نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔

مزید خبریں :