کراچی کے دومنظر

فوٹو: فائل

کسی نے، غالباً میر انیس نے کہا تھا کہ حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ پچھلے دنوں کراچی جانا ہوا تو دو منظر دیکھے، دلچسپ اور فکر انگیز۔

 پہلا منظر تو میرے سفر کا سبب تھا، کراچی کی آرٹس کونسل کی وہ کانفرنس جسے وہ ہر سال بلاتی ہے، جو اگرچہ اردو کانفرنس کہلاتی ہے لیکن اب ذرا مختلف ڈھنگ سے منعقد ہونے لگی ہے، وقت نے پہلو بدلا ہے اور اس میں ملک کی دوسری بڑی زبانیں بھی نمایاں مقام پانے لگی ہیں۔

دوسرا منظر بھی اتنا ہی جی کو خوش کرنے والا تھا اور وہ تھا کراچی کا کتاب میلا، یہ محض اتفاق ہے کہ دونوں میلے ایک ہی تاریخوں میں سجے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حاضرین دو جگہ بٹ جاتے اور مجمع کم ہو جاتا لیکن جو بھی ہوا اس کے برعکس ہوا۔

کتاب میلا تو میں نے پہلے نہیں دیکھا لیکن آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں حاضرین کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی، اور کتاب میلا کا وہ منظر کیونکر بیان کروں کے نمائش گاہ میں گھنٹوں گزارنے کے بعد جو لوگ گھروں کو لوٹ رہے تھے، سب کے ہاتھوں میں کتابوں سے بھرے تھیلے تھے۔

کہتے ہیں کہ ان تین چار دنوں میں کروڑوں روپے کی کتابیں خریدی گئیں۔ اس کی تفصیل ذرا دیر بعد، پہلے کیوں نہ اردو کانفرنس کا حال کہا جائے۔تو صاحبو یہ اس سلسلے کی، خدا جھوٹ نہ بلوائے، بارہویں کانفرنس تھی۔ پکّی درجن بھر۔ دو باتوں کے لئے پہلے ہی معذرت کر لوں۔

اس کی تعریفیں ہر ایک ہی کر رہا ہے اس لئے میں نہیں کروں گا۔ دوسرے یہ کہ اس توصیف گوئی میں کانفرنس کا جادو جگانے والے اس کے مہتمم جناب محمد احمد شاہ کا نام ہر ایک ہی بار بار دہرا رہا ہے، میں ٹھہرا قلم کار، تحریر میں بار بار کی تکرار ہر ایک کے دل و دماغ پر گراں گزرتی ہے، میں اس نام کی تکرار سے گریز کروں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ لیا جائے کہ میں کوتاہی برت رہا ہوں۔

سچ تو یہ ہے کہ احمد شاہ نہ ہوتے تو کراچی شہر کے قلب میں یہ محفلیں کاہے کو سجتیں اور یہ رونقیں کیوں برپا ہوتیں۔ ان کا دم غنیمت سے بھی کچھ بڑھ کر ہے۔

کانفرنس کو یہ بارہواں برس لگا ہے۔ اس کے طور طریقوں میں یکسانیت سی نظر آنا فطری بات ہے۔ اکثر وہی موضوعات ہیں، وہی شخصیتیں ہیں، وہی انداز اور ویسے ہی اسلوب ہیں۔ کوئی برا نہ مانے تو عرض کروں کہ اس تکرار کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ طنز میں وہ پہلی جیسی کاٹ نہیں رہی، مزاح میں وہ جولانی کم ہے، ادائیگی میں ندرت نہیں رہی او رپڑھت یا پڑھنت وہ پہلی جیسی برجستہ نہیں رہی۔

اس کا ایک خفیف سا سبب ابھی عرض کرتا ہوں۔ اول تو اسٹیج کو سجانے والی کتنی ہی بھاری بھرکم شخصیتیں ایک ایک کر کے اٹھ گئیں جن سے کبھی یہ نشستیں آراستہ ہوا کرتی تھیں وہ اوجھل ہوئے اور کیسی سرشاری کی فضا اپنے ہمراہ لیتے گئے۔

اور دوسرا سبب یہ ہے کہ جو ہیں، اللہ کرے جیتے رہیں، ان کا بھی یہی معاملہ ہے کہ گزرتے ہوئے وقت کے قدموں کی چاپ مدھم پڑتی جا رہی ہے۔ شاید ایسا نہ ہو، پر مجھے تو یوں ہی لگے ہے کہ کوئی ایک شخص ہے جو سال کے سال بیٹھ کر موضوعات طے کرتا ہے اور گفتگو کرنے والوں کی فہرست بھی وہی ترتیب دیتا ہے۔ چند ایک اکابرین کا داخلہ بند سا ہے، اسے کھولا جائے تو ان کے مشوروں کی بدولت شاید کچھ انداز بدلیں کچھ تیور تبدیل ہوں۔

یہ جو کانفرنس کے نام کے ساتھ اردو کا نام بھی آتا رہا ہے، اس میں کہیں کوئی الجھن ہے جسے دور کرنے کے لئے چار بڑی زبانوں کی نشستیں بھی ہونے لگی ہیں۔ ضرور ہوں۔ معذرت خواہی کے انداز میں نہیں، ڈنکے کی چوٹ پر۔

اس مناسبت سے ’اردو کانفرنس‘ میں کچھ ردو بدل کرنا پڑے تو کر گزرئیے۔ کانفرنس میں موسیقی بھی ہوتی ہے اور رقص بھی، اس کے علاوہ جی بہلانے کا سامان ہوتا ہے۔ ضرور ہو۔ ان کا زبان سے تعلق ہو نہ ہو، تہذیب سے گہرا رشتہ ضرور ہے اور میرا تو یہ اصرار ہے کہ اردو تنہا کچھ نہیں، ایک پوری تہذیب کا حصہ ہے۔ کوئی نہ مانے تو میری بلا سے۔

اس کے علاوہ شہر میں کتاب میلا ہوا تو خوب ہوا۔ اگرچہ دونوں واقعات ایک ہی تاریخوں میں ہوئے لیکن اس سے یہ ہوا کہ ہمیں دونوں میں شرکت نصیب ہوئی۔ کتاب میلے نے تو حیران کر دیا۔

یہ دن تو بلاشبہ مشکل کے دن ہیں، گرانی کمر توڑے ڈالتی ہے اور روزگار دوسروں کو کیا کھلائے گا کہ خود فاقہ زدہ ہے۔ ایسے میں ایک مجمع کو کتابو ں پر جھکے اور ورق گردانی کرتے دیکھا تو سوچتے ہی رہ گئے کہ کس کا شکریہ ادا کیا جائے، مصنف کا، ناشرکا یا کتب فروش کا۔

کراچی کے ایکسپو سینٹر میں جو بہت بڑی نمائش گاہ ہے، ملک کے اور بیرونِ ملک کے ناشروں نے اپنے اسٹال سجائے تھے اور گاہکوں کو بھاری رعایت دیے جانے کا اعلان ہو رہا تھا۔ وہاں کئی گھنٹے گزارنے کے بعد واپس گھروں کو جاتے ہوئے وہ لوگ اچھے لگے جن کے ہاتھوں میں کتابوں سے بھرے تھیلے تھے۔ اس روز مرحوم دوست ساقی فاروقی کا شعر بہت یاد آیا:

رات اسکول سے نکلی ہوئی دوشیزہ ہے

اس کے ہاتھوں میں کتابوں سے بھرا بستہ ہے

نمائش کے منتظمین بڑے پیار سے ملے اور انہوں نے دو چار دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً یہ کہ کتاب میلا اتنا مقبول ہو رہا ہے کہ کتب فروشوں نے ابھی سے اگلے برس کے لئے اسٹال محفوظ کرا لئے ہیں اور زیادہ گنجائش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

اس کے لئے وہ درخواست کے ساتھ پیشگی ادائیگی بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچے بہت دلچسپی کا مظاہر کر رہے ہیں اور والدین پر دبائو ڈال کر زیادہ کتابیں خرید رہے ہیں۔ بس ایک بات نے کچھ ستایا اور وہ یہ کہ میلے میں مذہبی کتابوں کا زور ذرا زیادہ تھا۔ یہ کتابیں سجیں اور ضرور سجیں لیکن آگے نکلتی ہوئی دنیا پر بھی نگاہ رکھنی ضروری ہے کہ کہیں ہم پیچھے نہ رہ جائیں۔

مزید خبریں :