Time 10 جنوری ، 2020
پاکستان

وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے کا وعدہ ختم

فائل فوٹو: وزیراعظم ہاؤس

اسلام آباد: شاہراہِ دستور پر واقع وزیراعظم آفس کی بجائے اب وزیراعظم ہاؤس استعمال کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں، پی ایم ہاؤس کو بین الاقوامی معیار کی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا۔

سرکاری ذرائع کے مطابق، وزیراعظم کی تمام اہم ملاقاتیں / اجلاس اِن دنوں وزیراعظم ہاؤس میں ہوتے ہیں تاہم، کابینہ کا اجلاس وزیراعظم سیکریٹریٹ، جسے وزیراعظم آفس بھی کہا جاتا ہے، میں ہی منعقد ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے اسٹاف میں شامل اہم ارکان بشمول سیکریٹری ٹوُ پرائم منسٹر اور ملٹری سیکریٹری بھی پہلے کی طرح وزیراعظم ہاؤس میں رہتے ہیں۔

دی نیوز کے رابطہ کرنے پر وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کے متعلق حکومت کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ معمول کی میٹنگز اور اجلاس وزیراعظم سیکریٹریٹ میں منعقد کی جاتی ہیں لیکن اہم غیر ملکی وفود سے وزیراعظم کی ملاقاتیں وزیراعظم ہاؤس میں قائم ان کے دفتر میں ہوتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں محدود جگہ کی وجہ سے اہم اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد کرنا پڑتے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم ہاؤس کو یونیورسٹی میں تبدیل کیے جانے کے بعد بھی اس میں موجود وزیراعظم وہاں قائم رہے گا۔

دسمبر 2018ء کے تیسرے ہفتے میں حکام نے اعلان کیا تھا کہ محل نما پی ایم ہاؤس کو انٹرنیشنل یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا جس کا نام اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی (آئی این یو) رکھا جائے گا۔

’’پاکستان کیلئے ابھرتے ہوئے چیلنجز اور مواقع‘‘ کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کے دوران آئی این یو کا افتتاح کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آئی این یو ایک خود مختار ادارہ ہوگی اور سرکاری مداخلت کے بغیر کام کرے گی۔ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں قائم ہونے والے ’’بیت الحکمۃ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کی شروعات ایک اچھے ادارے سے ہوگی،

جو اپنی کارکردگی برقرار رکھے گا اور اسے سینٹر آف ایکسیلنس بن جائے گا جو اپنی طرف دنیا بھر کے ماہرین اسکالرز کو راغب کرے گا تاکہ ملکی و غیر ملکی مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔ کہا گیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں ایڈوانس اسٹڈیز (جدید تعلیم) کا مرکز قائم کیا جائے گا جسے بعد میں باضابطہ یونیورسٹی میں تبدیل کر دیا جائے گا۔

وزیر تعلیم شفقت محمود نے بھی میڈیا سے بات چیت میں تصدیق کی تھی کہ ایڈوانس اسٹڈیز اور ریسرچ کا ادارہ وزیراعظم ہاؤس میں قائم کیا جائے گا جسے باضابطہ طور پر ایک یونیورسٹی میں بدل دیا جائے گا۔

ماضی میں حکمران جماعت نے محلاتی وزیراعظم ہاؤس، گورنر اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کا حوالہ دیتے ہوئے اسے نو آبادیاتی دور کی نشانی قرار دیا تھا اور ساتھ ہی اسے سرکاری خزانے کا زیاں اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے سرکاری وسائل کا استحصال قرار دیا گیا تھا۔

یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کے علاوہ وسیع و عریض گورنر ہاؤسز اور وزرائے اعلیٰ ہاؤسز کو بھی عوامی پارکس میں تبدیل کر دیا جائے گا تاکہ عوام انہیں استعمال کر سکیں۔

کفایت شعاری اور سادگی کو فروغ دینے کیلئے وزیراعظم نے سرکاری رہائش گاہ میں قیام نہ کرنے کو ترجیح دی اور اپنے ذاتی کے گھر میں قیام کرنا پسند کیا۔ ایک ذریعے کے مطابق، وزیراعظم سیکریٹریٹ میں جاسوسی کا امکان زیادہ ہوتا ہے اسلئے ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ سرکاری کام کاج اور اجلاس وزیراعظم ہاؤس منتقل کیے گئے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ایک غیر ملکی حکومت وفاقی کابینہ کے اجلاسوں کی جاسوسی کرتی تھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ سینیٹر رحمان ملک نے کچھ سال قبل کہا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس میں کابینہ کے کمرے سے جاسوسی کے سگنل پکڑے گئے تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، رحمان ملک کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کے پاس جاسوسی کی سرگرمیوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں ہے اسلئے جاسوسی کے سگنلز کو روکنے کیلئے چند کھڑکیوں کو سیمنٹ سے بند کر دیا گیا۔

مزید خبریں :