جنازے لوٹ کے آتے نہیں

فوٹو فائل—

سال میں تین سو پینسٹھ دن اور باون ہفتے ہوتے ہیں۔ صدی کے بیسویں برس کے پہلے دو ہفتے ہی میں ایسا بجوگ پڑا ہے کہ منزلوں منزلوں راہ تاریک نظر آتی ہے۔ طلوع کے دھندلے میں ایسی ویرانی ہے تو رات گزرے گی کس خرابی سے۔ بیوہ ماں نے رت جگوں کی محنت سے بارہ برس میں جو کٹیا اٹھائی تھی، رات کے پچھلے پہر کی آندھی نے ایک ہی شوخی میں چھت چھین لی، کواڑ اکھاڑ دیے، چار دیواری اوجھل ہو گئی، ہماری غربت کا پردہ چاک ہو گیا۔ 

برادر بزرگ ایاز امیر اکثر گلہ کیا کرتے ہیں کہ ہم نے میکدے سے جوانی اٹھا کے لانے کی راہ بھی مسدود کر دی ہے۔ عمر رفتہ کی بازیافت کا یہ نسخہ ہمیں عبد الحمید عدم نے سجھایا تھا۔ لیکن تجربے نے بتایا کہ رات کی بے خودی سے گزری ہوئی جوانی لوٹ کر نہیں آیا کرتی۔ ترنجن کی سکھیاں پھر سے مل بیٹھیں، ایسا نہیں ہوتا۔ ایک ہی دریا میں دو دفعہ قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ دریا کی موجیں ہر لحظہ نقشہ بدلتی ہیں۔ 

کشتی کے مسافر ایک گھاٹ اتر جائیں تو پھر نئے قافلے مرتب ہوتے ہیں، نئی وادیوں میں پڑاؤ کرنا ہوتے ہیں۔ ہم نے مگر کس بنجر قدیم ناممکن دو آبے میں خیمے گاڑے کہ ہمارا والٹن کیمپ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ دو برس گزرے، جنوری کے یہی دن تھے۔ ایک ہی دن میں منو بھائی اور ساقی فاروقی رخصت ہو گئے۔ اردو کی دو توانا آوازیں۔

 اردو صحافت کو منو بھائی کی بے ساختہ بذلہ سنجی میں لپٹا درد کا خزینہ دوبارہ نصیب نہیں ہو گا۔ ساقی فاروقی کے بارے میں کیا کہا جائے۔ ایک پہلو سے دیکھیں تو وجود کا جشن تھے اور دوسری طرف کی ٹوہ لیں تو رائیگانی کا آشوب تھے۔ ایک شعر ساقی فاروقی کا دیکھیے۔ گلے میں رنگ برنگے منکوں کی مالا ڈالنے والے ملامتی نے ایک دفعہ تو بسنتی چولا اتار پھینکا اور بھیتر کے دکھ کو لفظ بخش دیے۔

یہ کہہ کے ہمیں چھوڑ گئی روشنی اک رات

تم اپنے چراغوں کی حفاظت نہیں کرتے

چراغوں کی حفاظت ہمیں کیا کرنا تھی۔ یہ تو بصارت نہیں، بصیرت کا سودا ہے۔ ہم نے تو روشن چراغ بجھا دیے، جادو کے چراغ بیچ ڈالے اور اترا اترا کے اعلان کرتے ہیں کہ سالانہ 20ارب ڈالر کی ترسیلات خزانے میں پہنچ رہی ہیں۔ وائے افسوس! یہ نہیں سوچا کہ جو خزانے سمندر پار بھیج دیے، یہ ہماری زمیں پر روشنی کرتے تو ہماری دولت کا کیا شمار ہوتا۔ یوں مانگے کے چراغ میں ادھار کا تیل ڈال کر آرزوؤں کے ہالے میں سر نیہوڑائے نہ بیٹھے ہوتے۔ اور یہ 20 ارب ڈالرز بھی تاب کے؟ ہمارے بچوں کی برآمد بقدر سد رمق رہ گئی۔

 پرائی بستیاں آباد کرنے والوں کی دوسری اور تیسری نسل جوان ہو رہی ہے۔ اجنبی زمینوں پر پرائی زبانوں میں تعلیم پا کر بیس ناخن سے رزق کمانے والے یہ بچے کسے پیسے بھیجیں گے اور کیوں؟ دنیا روبوٹ کے انقلاب میں داخل ہو رہی ہے۔ ہاتھ کی محنت ماضی کا قصہ ہونے کو ہے۔ خود کار گاڑیوں کی دنیا میں ٹیکسی ڈرائیور کی نوکری کاہے کو سلامت رہے گی؟ 

نئی دنیا میں وہی ہاتھ کارآمد ہوں گے جن کے کندھوں پر غور و فکر کرنے والا دماغ رکھا ہو گا۔ کیا ہماری تعلیم یہ دماغ تیار کر رہی ہے؟ اس کا جواب محترم ڈاکٹر عطاء الرحمٰن سے نہیں، ڈاکٹر شاہد صدیقی سے دریافت کیجئے۔ آبادی 22کروڑ، رقبہ محدود، تعلیم معدوم اور اس سب سے بڑا بحران یہ کہ اخلاقی قامت؟ اگلے روز ڈاکٹر اختر علی سید سے بات ہوئی۔ کسی نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی۔ عرض کی کہ حضور، پوری قوم نے ایک نیا شغل دریافت کیا ہے۔ سب مل کر ایک دوسرے کی جی بھر کر توہین کر رہے ہیں۔ دوسرے کا ننگ ڈھونڈنے میں اپنی بے چادری کا مداوا تلاش کر لیا ہے۔ اختر علی سے محبت کا رشتہ پرانا ہے۔ ان کے تحمل سے میرے اضطراب کو ہمیشہ توازن میسر آیا۔ اس روز لیکن وہ بھی بے قرار تھے۔ کہنے لگے، ملال یہ ہے کہ ہمارے دن بدلنے کا نام نہیں لے رہے اور دنیا ہمارے انتظار میں نہیں بیٹھی۔ اب تو جنوبی ایشیا اور افریقا بھی ہم سے آگے نکل گئے۔ 

بات یہ ہے کہ صراحی میں چھلنی کا پیندا لگائیں گے تو چھاگل خالی ہو جائے گی، پیاسے ہونٹوں کا درماں نہیں ہو سکے گا۔ ہم چھلنی کی طرف اشارہ بھی کرتے ہیں تو مردود قرار پاتے ہیں۔ حب الوطنی اور حق گوئی کا معیار یہ قرار پایا کہ دائیں بائیں دیکھ کے احتیاط سے اپنا ہدف مقرر کیا جائے، ایک محترم صحافی نے حالیہ تحریر میں سیاست دانوں کے لئے ’اوقات‘ اور ’لیول‘ جیسے لفظ استعمال کئے ہیں۔ 

درویشوں کو فیض یاب ہستیوں پر انگشت نمائی کی تاب نہیں لیکن دل نہیں مانتا کہ سرد گرم چشیدہ صحافی ان لفظوں کا لہجہ نہیں سمجھتا۔ اگر محض نادانستہ بے احتیاطی کا معاملہ ہوتا تو کبھی ایسے ہی سخت لفظ وہاں بھی برتے جاتے، جہاں طلسمات کے در کھلتے ہیں۔

درویش کو خبر کا دعویٰ نہیں لیکن بتائے دیتا ہوں کہ عوام رہنماؤں سے آگے نکل گئے ہیں۔ اس لئے کہ سخت سردی میں عوام کے پاؤں میں جرابیں نہیں، بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کے پیسے نہیں۔ ادھر امیر شہر کی صاحبزادی کی تقریب کتخدائی میں تین روز تک سرکار دربار کے جملہ چراغ جلتے ہیں۔ اس ملک کے لوگ اب نظریہ ضرورت اور وسیع تر قومی مفاد کا حقیقی مفہوم سمجھ گئے ہیں۔ انہیں اب کرپشن حقیقی اور مجازی کا اسم اعظم بھی معلوم ہو گیا ہے۔ جو کھیل پردے کے پیچھے کھیلا جاتا تھا، وہ شہر کے چوراہے پر آ پہنچا ہے۔ 

جادوگر کا راز فاش ہو جائے تو مجمع بکھرنے لگتا ہے۔ ہانگ کانگ، عراق، ایران، بھارت اور دنیا کے بہت سے خطوں میں مجمع بکھر رہا ہے اور احتجاج مرتب ہو رہا ہے۔ ہمارے ہاں ابھی اس کی امید نہیں لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہماری شہر پناہ پر جو حادثہ گزرا ہے، وہ ایک باب ختم ہونے کا اعلان ہے۔ اور اس سے اگلی منزل باب استجاب کی نہیں کیونکہ ہماری صراحی میں چھلنی لگی ہے اور جنازے لوٹ کے نہیں آیا کرتے۔

مزید خبریں :