نواز شریف کا ورکرز کو خط

 میں نے بہت سوچ سمجھ کر سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا ہے—فوٹو فائل

مسلم لیگ(ن)کے شیرو!

آج میں دل کی کچھ باتیں آپ کیساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ خط آپ تک پہنچنے سے پہلے سیاسی مخالفین میرے ناشتہ کرنے کی تصویر پر ہنگامہ برپا کر چکے ہوں گے۔ اُنہیں میری تصویر دیکھ کر بہت دکھ ہوا ہوگا کیونکہ ان کی خواہش ہے کہ نواز شریف بسترِ علالت پر یوں دراز ہو کہ منہ پر آکسیجن ماسک لگا ہو اور چلنے پھرنے سے یا بات کرنے سے قاصر ہو لیکن اُن کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی۔ یہ ذہنی مریض اتنی سی بات بھی نہیں جانتے کہ کسی سے ملنے جلنے یا باہر کسی ریستوران پر جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ بیماری ڈھونگ ہے اور اب اس شخص کو کوئی مرض لاحق نہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ آپ سب پاکستان میں ہونے والی حالیہ پیشرفت کے باعث سکتے کی کیفیت میں ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ یہ چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے عصر کے وقت روزہ کیوں توڑ دیا۔

 بھانت بھانت کے تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک طرف مجھے اس تنقید سے دُکھ ہو رہا ہے تو دوسری طرف یہ بات اطمینان کا باعث ہے کہ میری جدوجہد بےثمر نہیں رہی اور اب ہمارے معاشرے میں ووٹ کی حرمت کا تصور راسخ ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مخلص کارکن بھی نہ صرف قیادت کو برابھلا کہہ رہے ہیں بلکہ سوالات اُٹھا رہے ہیں۔

عزیز ساتھیو!

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے اپنے اس بیانیے کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ جو لوگ میرے مزاج سے واقف ہیں، انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایک بار جو ٹھان لیتا ہوں وہ کرکے رہتا ہوں۔ میں نے بہت سوچ سمجھ کر سویلین بالادستی اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا۔ اگر مجھے ڈیل کرنا ہوتی تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ حکومتی وزرا بھی برملا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف سمجھوتہ کرلیتا تو چوتھی بار بھی وزیراعظم ہوتا مگر میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو ڈکٹیشن لیتے ہیں یا شکست کے خوف سے سرنڈر کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنی بیوی کو بسترِ مرگ پر تنہا چھوڑ کر اپنی بیٹی کیساتھ لندن سے واپس آکر گرفتاری اس لئے دی کہ مجھ پر اعتماد کرنے والوں کو مایوسی نہ ہو۔ میں جیل کی سختیوں اور مشکلات سے نہیں گھبرایا، میں ذہنی طور پر اس بات کیلئے بھی تیار تھا کہ شاید مجھے جیل میں ہی مار دیا جائے۔

 جب ان کٹھن ترین حالات میں نوازشریف نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تو اب بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ چند سانسیں اُدھار لینے کیلئے میں تاریخی کردار سے روگردانی کرلیتا؟ ڈیل کا طعنہ دینے والے بتائیں کہ ڈیل کے ذریعے مجھے کیا عطا کیا جا سکتا ہے؟ وہ اقتدار جسے میں ٹھوکر مار کر آیا ہوں؟ سانسوں کی وہ ڈور جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے اس کیلئے بھیک مانگنے کی حماقت کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جن لوگوں کا خیال ہے کہ میں نے شہباز شریف صاحب یا پھر اپنی بیٹی مریم کیلئے قربانی دی ہے، وہ بھی مغالطوں کا شکار ہیں۔

سویلین بالادستی کے علم بردارو!

میں جیل میں یا پاکستان کے کسی ہاسپٹل میں مر جاتا اور میں ذہنی طور پر موت کا سامنا کرنے کیلئے تیار تھا لیکن کیا ایک اور چراغ بجھ جانے سے اندھیرے چھٹ جاتے؟ کیا میری موت سے ووٹ کو عزت مل جاتی اور سویلین بالادستی کی منزل حاصل ہو جاتی؟ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر بھٹو پھانسی کے پھندے پر جھولنے کے بجائے زندہ رہ جاتا تو کیا آج ہماری سیاسی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟ سچ یہ ہے کہ میں نے دوراندیشی اور حکمت کے تحت دریا پار کرنے کیلئے فی الحال ڈوب جانے کا فیصلہ کیا۔

میں تو کتابیں پڑھنے کا زیادہ شوقین نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ سیاست گر اور جادو گر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں۔ سیاستدان کو بھی جادوگر کی طرح بعض ایسے کرتب دکھانا پڑتے ہیں جو دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔مریم نے ایک بار امریکی اسکالر، ایچ ایل میکن سے منسوب قول بتایا تھا کہ بندر کے پنجرے سے سرکس چلانے کے فن اور سائنس کا نام جمہوریت ہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان جیسے ملک میں ووٹ کو عزت دلانے کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی اسی عطار کے لونڈے سے دوائی لینا پڑتی ہے جس کے سبب آپ بیمار ہوئے۔

ووٹ کو عزت دو کے پاسدارو!

یہ راج نیتی کا کھیل شطرنج کی بازی سے بھی کہیں زیادہ ناقابلِ فہم ہے۔ مخالف کو شہ مات دینے اور بڑی چال چلنے کیلئے ایک قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ آپ نے پسپائی اختیار کرلی۔ زہر کا اثر ختم کرنے کیلئے زہر کو ہی تریاق بنانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک بار پھر جسم میں زہر اُتارنے کی حماقت کی جا رہی ہے۔ 

میں نے ووٹ کو عزت دلانے اور سویلین بالادستی کا مقام پانے کیلئے جو چال چلی ہے اس کی علامات تو فوری طور ہر ظاہر ہونے لگی ہیں البتہ چند ماہ بعد اس کے اثرات بھی سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ آپ بددل ہونے کے بجائے اپنے دوستوں کو یہ فلسفہ سمجھائیں، اُنہیں بتائیں کہ اگر آپ کو ہماری جماعت کی موجودہ سیاسی چال کی سمجھ نہیں آئی تو شعیب منصور کی فلم ’’ورنہ ‘‘دیکھیں۔ اگر یہ فلم دیکھنے کے بعد بھی کوئی ہونقوں کی طرح منہ تکتا نظر آئے تو محض یہ کہنے پر اکتفا کریں۔ ’’ارے او بوندھو! تم کیا جانو! دو چٹکی راج نیتی کا سواد۔‘‘

فی الحال اجازت دیں۔ ڈاکٹر عدنان کہہ رہا ہے کہ رائل برومپٹن ہاسپٹل (Royal Brompton Hospital)چیک اپ کیلئے جانا ہے۔ ڈاکٹروں نے ہوا خوری کیلئے دن میں دو بار گھر سے باہر نکلنے کو کہا ہے اس لئے ممکن ہے آئندہ دنوں میں مزید تصویریں سیاسی مخالفین کی چھاتی پر مونگ دلتی نظر آئیں۔

آپ کا اپنا

نوازشریف

ایون فیلڈاپارٹمنٹس،مے فیئر، لندن

مزید خبریں :