22 جنوری ، 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے روشن سندھ پروگرام مبینہ کرپشن کیس میں سابق صوبائی وزیر بلدیات سندھ شرجیل انعام میمن کی عبوری ضمانت میں 11 فروری تک توسیع کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس لبنٰی سلیم پرویز پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سولر لائٹس کی تنصیب سے متعلق روشن سندھ پروگرام میں مبینہ کرپشن کیس میں شرجیل میمن کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔
دوران سماعت شرجیل میمن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ شرجیل میمن نے صرف بطور وزیر منصوبے کی سمری آگے بھجوائی، وہ منصوبےکی منظوری دینے والی کمیٹی کے رکن نہیں تھے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قومی احتساب بیورو(نیب) کے پاس کسی کو سزا دینے کا اختیار نہیں، نیب صرف تفتیش کر سکتا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے شرجیل میمن سے منصوبے میں کرپشن کی رقم برآمد کرنی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ نیب کے پاس کس قانون کے تحت ملزم کو گرفتار کر کے رقم برآمد کرنے کا اختیار ہے؟ کیا آپ نے شرجیل میمن کو گرفتار کر کے ٹارچر کرنا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بار بار بتا چکے ہیں کہ نیب کے پاس گرفتاری کا اختیار کتنا اور کن حالات میں ہے ،نیب کے پاس رقم برآمد کرنے کا اختیار نہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ گرفتاری کے دوران کوئی پلی بارگین (رقم کی رضاکارانہ واپسی) پر راضی ہو تو وہ پلی بارگین نہیں ہو گا، ملزم پلی بارگین مکمل آزادی اور اپنی مرضی سے ہی کر سکتا ہے، نیب نے اگر خود سزائیں دینی ہیں تو ہم عدالتیں بند کر دیتے ہیں۔
عدالت نے شرجیل میمن کی عبوری ضمانت 11 فروری تک بڑھانے کا فیصلہ سنادیا، جس پر نیب وکیل کا کہنا تھاکہ نیب کیس میں ایسے ضمانت نہیں دی جاسکتی ، سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود ہے ۔
اس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ اگلی سماعت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ دوبارہ پڑھ کر آئیں۔