عمران فاروق کیس: مزید 2 برطانوی گواہوں کے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ

اسلام آباد: انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں مزید 2  گواہوں کے بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کرلیے۔ 

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے عمران فاروق قتل کیس کی سماعت کی، اس دوران 3 گرفتار ملزمان محسن علی سید، خالد شمیم اور معظم علی کو عدالت پیش کیا گیا۔ 

برطانوی گواہ محمد اکبر اور معین الدین شیخ نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیانات ریکارڈ کرائے جبکہ ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر خواجہ امتیاز نے گواہوں سے سوالات پوچھے اور وکلائے صفائی ذیشان ریاض چیمہ اور محمد بخش مہر نے گواہوں پر جرح کی۔

ٹیکسی ڈرائیور گواہ محمد اکبر نے اپنا بیان وڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ معظم علی پہلی مرتبہ الطاف حسین کی شادی میں شرکت کے لیے انگلینڈ آیا، وہ پہلا موقع تھا جب معظم علی سے میری ملاقات ہوئی، اس کے بعد میں اور معظم اچھے دوست بن گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ معظم لندن وزٹ کے دوران میرے ساتھ رہا، معظم علی تین سے چار دفعہ مزید انگلینڈ آیا اور میں نے 2 مرتبہ پاکستان کا وزٹ کیا، میں نے پاکستان کا دورہ کیا تو معظم علی مجھے ائیرپورٹ پک کرنے آیا، مجھے کہا گیا کہ کچھ وجوہات کی بناء پر اس ایریا سے باہر نہ جانے دیا جائے جہاں مجھے ٹھہرایا گیا۔

گواہ کے مطابق میں یقین سے اس متعلق نہیں کہہ سکتا مگر وہ ایریا نائن زیرو تھا، جب میں وہاں گیا تو خوفزدہ ہو گیا، وہاں چیک پوسٹ بنی تھی اور بیریئر کے ساتھ کھڑے افرا کے پاس گنیں بھی تھیں، وہ میرا آخری دورہ تھا جس کے بعد میں نے طے کیا کہ آئندہ وہاں نہیں جاؤں گا،  میں اس ٹائپ کا آدمی نہیں ہوں۔

گواہ ٹیکسی ڈرائیور کا کہنا تھا کہ معظم علی آخری مرتبہ سردیوں میں انگلینڈ آیا اور مجھے کہا کہ ایجویئر لے جاؤ، یہ وہ علاقہ ہے جہاں لندن میں ایم کیو ایم کا ہیڈ کوارٹر ہے، معظم علی نے وہاں 2 گھنٹے گزارے اور واپسی پر اسے پسینہ آ رہا تھا اور وہ کانپ رہا تھا۔

انہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے بتایا کہ موبائل ڈیٹا ٹرانسفر کے دوران معظم علی کا میسج سامنے آیا، معظم علی نے میسج میں محسن علی سید اور اس کی اتحاد ایئرویز کی فلائیٹ کی تفصیل بھجوائی تھی، معظم علی نے بتایا کہ اس کا بھتیجا محسن علی اسٹوڈنٹ ویزہ پر آ رہا ہے، محسن علی کو ائیرپورٹ سے پک کیا اور اپنے دوست فرخ کو کہہ کر رہائش کا بندوبست کرایا۔

ٹکیسی ڈرائیور گواہ محد اکبر کا کہنا ہے کہ  میرے دوست فرخ نے بتایا کہ محسن علی کی پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں، یہ بھی بتایا کہ محسن علی زیادہ وقت کمرے میں گزارتا ہے اور فون پر بات کرتا رہتا ہے۔ 

 محسن علی کے اچانک غائب ہونے کی پولیس کو اطلاع دی: گواہ

دوسرے برطانوی گواہ معین الدین شیخ نے ویڈیو لنک کے ذریعے بیان رکارڈ کرتے ہوئے بتایا کہ محسن علی سید اُس دکان پر کام کرتا تھا جہاں میں بھی ملازمت کرتا تھا، محسن علی سید رہنے کے لیے روم کی تلاش میں تھا، میں نے اسے پیشکش کی میرے پاس ایک کمرہ خالی ہے، وہ رہائش اختیار کرسکتا ہے۔

گواہ نے بتایا کہ محسن علی نے مجھ سے کرائے پر روم حاصل کیا جہاں وہ اکیلے رہتا تھا، غائب ہونے سے کچھ عرصہ پہلے محسن علی سید سے ایک شخص نے ملاقات کی، کامران نامی شخص محسن علی سید سے ملاقات کرنے آیا تھا۔

گواہ معین الدین شیخ کے مطابق محسن علی نے مجھے اپنے پاسپورٹ اور اسٹوڈنٹ کارڈ کی کاپی فراہم کی تھی، میں محسن سے 40 پاؤنڈز فی ہفتہ کے حساب سے کرایہ وصول کررہا تھا، جب محسن غائب ہوا تو میں نے فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر رابطہ نہ ہوا، میں نے کالج سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کئی دنوں سے کالج بھی نہیں گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ میں نے محسن علی کے اچانک غائب ہونے کی پولیس کو اطلاع دی اور  محسن علی اور کامران کا حلیہ بھی پولیس کو بتایا، پولیس میرے گھر آئی تو خاتون پولیس افسر نے بتایا محسن کو ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔

 عدالت نے دونوں گواہوں کے بیان قلمبند کرنے کے بعد مزید 2 گواہوں کو کل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں 3 عینی شاہدین سمیت 6 گواہوں کے بیان ویڈیو لنک کے ذریعے ریکارڈ کیے تھے جبکہ 3 عینی شاہدین میں سے 2 خواتین ڈاکٹر عمران فاروق کے پڑوس میں رہائش پذیر تھیں۔ 

عمران فاروق قتل کیس

50 سالہ ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

حملے کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے، انہوں نے سوگواران میں اہلیہ اور دو بیٹوں کو چھوڑا ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی موت چاقو کے حملے کے نتیجے میں آنے والے زخموں کی وجہ سے ہوئی۔

ایف آئی اے نے 2015 میں عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینیئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو بھی قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک اور ملزم کاشف خان کامران کی موت ہو چکی ہے۔

مزید خبریں :