Time 19 مارچ ، 2020
بلاگ

گھبرانا نہیں

فوٹو فائل—

حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا لیکن حکومت کے اندر پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔ منگل کی رات وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس کے بارے میں قوم سے خطاب فرمایا۔ معلوم نہیں اس خطاب سے قوم کی پریشانیوں میں کوئی کمی واقع ہوئی یا نہیں لیکن جناب وزیراعظم کے کچھ ساتھیوں کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔ 

وفاقی کابینہ کے ایک رکن نے مجھے بتایا کہ پہلے ہم اس انتظار میں تھے کہ وزیراعظم کورونا کے بارے میں قوم سے کب خطاب کریں گے اور کن اقدامات کا اعلان کریں گے؟ جب خطاب ہو گیا تو کابینہ کے ارکان نے ایک دوسرے سے کہا کہ اس سے بہتر یہ ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم کوئی تقریر ہی نہ فرماتے کیونکہ تقریر میں اقوالِ زریں کی تو بھرمار تھی لیکن افعالِ زریں کا ذکر نہیں تھا۔ 

کورونا وائرس کے بارے میں وفاقی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ پاکستان کا میڈیا پچھلے دو ماہ سے کورونا وائرس پر شور مچا رہا ہے لیکن وفاقی حکومت کو یہ شور اچھا نہیں لگا۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں حکومت آزاد کشمیر کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا کہ جیو نیوز نے ریاست جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا ہے لہٰذا جیو نیوز پر غداری کا مقدمہ چلانے کی شکایت کی جائے۔ 

اندازہ لگائیں دنیا کورونا وائرس کے پیچھے لگی ہوئی ہے اور وفاقی حکومت جیو نیوز کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ مجھے حکومت آزاد کشمیر کی ایک اہم شخصیت نے وفاقی وزارتِ داخلہ کے اس خط سے آگاہ کیا تو وہ تمام چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگے جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری ایک بزنس مین اور نیب کا معاملہ ہے اس میں آزادیٔ صحافت کہاں آ گئی؟ اب ذرا یہ بھی سن لیجئے کہ وفاقی وزارتِ داخلہ کی طرف سے حکومت آزاد کشمیر کو لکھے جانے والے خط کا کیا پس منظر ہے؟

 آج سے پانچ سال پہلے جیو نیوز کے مقبول پروگرام ’’آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں غلطی سے ایک نقشہ دکھا دیا گیا جس میں کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھایا گیا تھا۔ یہ نقشہ شاہ زیب خانزادہ کی ٹیم کے ایک ریسرچر نے گوگل سے ڈاؤن لوڈ کیا تھا لیکن غلطی کا احساس ہونے پر شاہ زیب خانزادہ نے اپنے ناظرین سے معذرت کر لی اور معاملہ ختم ہو گیا لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو پانچ سال بعد یہ معاملہ پھر یاد آ گیا ہے۔ وہ بھول گئے کہ 2011ء میں عمران خان کی کتاب لندن سے شائع ہوئی تو ان کے پبلشر نے بھی یہی نقشہ کتاب میں شائع کیا تھا جس پر عمران خان کو کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت نے عمران خان پر کوئی مقدمہ نہیں بنایا، البتہ ان کے پبلشر نے مارکیٹ سے یہ کتاب غائب کر دی تھی۔ عمران خان کی غلطی قابلِ معافی ہے لیکن شاہ زیب خانزادہ کی غلطی قابلِ معافی نہیں کیونکہ وہ کورونا وائرس کے خلاف حکومت کی پالیسی میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتے رہے اور حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔ انہی سوالات کی وجہ سے نیب نے میر شکیل الرحمٰن کو غیر قانونی طور پر ’’اغوا‘‘ کیا اور اب جیو نیوز ٹارگٹ پر ہے۔

کابینہ کے جس محترم رکن نے وزیراعظم کی تقریر پر مایوسی کا اظہار کیا، انہوں نے پوچھا کیا آپ کو پتا ہے پچھلے دنوں وزیراعظم کو آپ کے بارے میں بھی کوئی اطلاع دی گئی ہے؟ میں نے قہقہہ لگایا اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ جی مجھے پتا ہے کہ وزیراعظم کو بتایا گیا کہ حامد میر نے بھاری رقم بیرونِ ملک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی ہے اور ایک صاحب تمام حقیقت معلوم ہونے کے باوجود انہیں کہہ رہے ہیں کہ تحقیقات جاری ہیں، بہت جلد حقائق سامنے آ جائیں گے حالانکہ انہیں پتا ہے کہ میرا بیرونِ ملک کوئی اکاؤنٹ نہیں ہے اور میرے پاس پاکستان میں جو کچھ بھی ہے وہ ایف بی آر کے علم میں ہے۔ 

ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی ایف بی آر نے کچھ عرصہ قبل مجھے دبئی میں کسی پراپرٹی کا نوٹس دے دیا اور جب پتا چلا کہ یہ پراپرٹی کسی اور حامد میر کی ہے تو پھر اپنا نوٹس واپس لے لیا اور معذرت کی زحمت بھی گوارا نہیں کی۔ میں نے ایک ملاقات میں وزیراعظم عمران خان کو شکایت کی کہ ایف بی آر نے مجھے غلط نوٹس دیا اگر مجھے غلط نوٹس دیا جا سکتا ہے تو سوچیں یہ باقی لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہوں گے؟ 

وزیراعظم صاحب نے جواب میں کہا کہ ایف بی آر کے افسروں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہوگا تاکہ تم میرے خلاف بولنا شروع کر دو۔ لگتا ہے کہ وزیراعظم کو ایسے چالاک لوگوں نے گھیر رکھا ہے جو انہیں بہت سوچ سمجھ کر گمراہ کرتے ہیں، انہوں نے غلط فیصلے کراتے ہیں اور ان کی بدنامی میں اضافہ کراتے ہیں۔ جس انداز سے میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کیا گیا ہے اس کے بعد مجھے شک نہیں کہ اس معاملے میں نیب اکیلا نہیں ہے۔ کچھ اور لوگ بھی نیب کی خاموش معاونت کر رہے ہیں اور نیب کو اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف بھی استعمال کر رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ تو واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ نیب ججوں کو بلیک میل مت کرے۔ نیب نے میر شکیل الرحمٰن پر جو الزام لگایا ہے اسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ سمیت تمام اہم عالمی اداروں نے مسترد کر دیا ہے لہٰذا اس الزام کو عدالتوں میں ثابت کرنا بہت مشکل ہوگا اسی لئے میر شکیل الرحمٰن اور جیو نیوز کے خلاف کئی کئی سال پرانے الزامات کو کھنگالا جا رہا ہے۔ 

افسوس کہ جیو نیوز کے خلاف کشمیر کارڈ کھیلا جا رہا ہے۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وستم کے خلاف سب سے زیادہ آواز جیو نیوز اور جنگ نے بلند کی۔ 5اگست 2019ء کو بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تو میں نے کشمیر کے لاک ڈاؤن کے خلاف لائن آف کنٹرول سے لیکر برطانیہ کے مختلف شہروں میں خصوصی شو کیے۔ 

5اگست 2019ء کے بعد بھارتی ظلم ستم کے خلاف جتنی آواز جیو نیوز پر اٹھائی گئی کسی دوسرے پرائیویٹ چینل نے اتنی آواز نہیں اٹھائی لیکن افسوس کہ اس جیو نیوز کے بارے میں حکومت آزاد کشمیر کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میر شکیل الرحمٰن کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے اپنے اخبار اور ٹی وی چینل کے ذریعہ کبھی پاکستان کا ’’ماما‘‘ یا ’’چاچا‘‘ بننے کی کوشش نہیں کی۔

آج میں پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے سسر ملک غلام نبی کی کتاب ’’قصہ ایک صدی کا‘‘ کا ذکر کروں گا جس میں انہوں نے تحریک پاکستان میں میر خلیل الرحمٰن کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا اور لکھا کہ میر خلیل الرحمٰن کا شمار قائداعظمؒ کے جانثاروں میں ہوتا تھا۔ 

ملک غلام نبی کی کتاب میں 9جون 1947ء کو دہلی میں مسلم لیگ کونسل کے اس اجلاس کی کہانی لکھی گئی ہے جس کی صدارت قائداعظم ؒ نے کی تھی اور ملک صاحب نے بھی یہاں خطاب کیا اور یہیں ان کی میر خلیل الرحمٰن سے ملاقات ہوئی۔ 

اسی میر خلیل الرحمٰن کے برخوردار میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرکے نیب سر سے پاؤں تک متنازع بن چکی ہے اور اب جیو کے خلاف نت نئے مقدمات کے جواز تلاش کیے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ حکومت کورونا وائرس کے بجائے جیو اور جنگ سے لڑتی نظر آئے اور ماسک کے بغیر الزامات لگاتی دکھائے دے تو گھبرائیے گا نہیں، جیو اور جنگ ثابت قدم رہیں گے لیکن پاکستان کی خیر مانگتے رہیے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔