دنیا
04 ستمبر ، 2012

بھارتی جوہری صلاحیت ناقابل بھروسہ میزائلوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار

 بھارتی جوہری صلاحیت ناقابل بھروسہ میزائلوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار

کراچی…محمد رفیق مانگٹ… بھارت کے جوہری ہتھیاروں کی افادیت ناقابل بھروسہ اور غیر معیاری میزائلوں کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہے۔ دنیا کی جوہری طاقت کے متعلق انتہائی معتبر غیر سرکاری ادارے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ بھارت کی جوہری صلاحیت اپنے روایتی حریف ممالک چین اور پاکستان سے بہت پیچھے ہے ۔نئی دہلی کے پاس اب بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا بڑا ذریعہ طیارے ہیں جن میں میراج2000اور جیگوارجیسے طیاروں کے پروں میں میزائل ڈلیوری نظام نصب ہے۔ اس کے برعکس پاکستان اور چین کے پاس کسی بھی ملٹری ایکشن کی صورت میں جوہری میزائلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے ،نصب کرنے اور لانچ کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بھارتی جوہری صلاحیتیں 2012میں اگنی فائیو کا تجربہ کرنے کے باوجود بہت پیچھے ہیں۔رپورٹ کے مطابق اگنی ون اور ٹو کے آپریشنل ہونے کے باجود ان کی کارکردگی اور صلاحیتوں پر متعدد سوالیہ نشان موجود ہیں ، ناقابل بھروسہ ہونے کی وجہسے ان کے مکمل آپریشنل ہونے میں تاخیر ہوئی ہے جب کہ اگنی سیریز کے تھری ،فور اور فائیو نامی میزائل اب بھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارتی بیلسٹک میزائلوں کا بڑا حصہ پرتھوی میزائلوں کے تین ورژن پر مشتمل ہے لیکن ان میں سے صرف فوج کے پاس پرتھوی ون ہی ہے جو جوہری صلاحیت کا حامل ہے۔ اس سب کے باوجود اگنی فائیو کی تیاری نے بھارت، چین اور پاکستان میں سیکیورٹی تعلقات کی پیچیدگی میں مزید اضافہ کر دیا۔ دہلی پالیسی گروپ کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) وی آر راگاون اس رپورٹ سے اتفاق نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ اگنی ون آپریشنل ہے اور اس کے کامیاب تجربات بھی کیے گئے ہیں جب کہ اگنی ٹو اور تھری بھی تیار ہیں ، ضرورت پڑنے پر انہیں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سابق نیوی چیف اور چیئرمین جوائینٹ آف اسٹاف ایڈمرل ارون پرکاش اس کے برعکس نکتہ نظر رکھتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میزائل اور جوہری وارہیڈز کی تیاری،صلاحیتوں ،کارکردگی اور ان کے قابل اعتماد ہونے کی تمام باتوں کا انحصار بھارت کے جوہری اور میزائل پروگرام کے ادارے ’ڈی آر ڈی او‘ کے سائنسدانوں کے بیانات پر ہے جن پر ہم بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کے متضاد دعووں نے ہماری جوہری ہتھیاروں کی کارکردگی اور ساکھ پر سوالیہ نشان کھڑے کردیئے ۔رپورٹ کے مطابق بھارت کے پاس80سے100تک جوہری ہتھیار ہیں جب کہ 2011 کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تیزی سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف پاکستان کے پاس90سے110جوہری ہتھیار ہیں۔ پاکستان کے جوہری ہتھیار وں کا ذخیرہ بھی زیادہ تر طیاروں سے گرائے جانے والے بموں پر مشتمل ہیتاہم چین کی طرف سے فراہم کیے گئے میزائلوں کے بعد اب ہتھیار وں کو میزائلوں میں نصب کرکے ملک بھر میں پھیلایا گیا ہے جن میں غزنوی ،شاہین ون اور غور ی اور طویل رینج کے میزائل شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق سب سے نمایاں پاکستان کا70کلومیٹر شارٹ رینج بیلسٹک میزائل نصر ہے جو صرف بھارتی خطرے کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ۔ بابر اور راعد کروز نامی میزائلوں کی تیاری میں بھی پاکستان اگلے مراحل میں پہنچ چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق چین کے پاس 240سے زائد جوہری ہتھیار ہیں اور ان کی ڈلیوری رینج دو ہزار سے گیارہ ہزار کلومیٹر تک ہے۔بھارت اور چین کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ بھارتی تھرمو نیوکلیئر ہتھیار کی صلاحیت مشکوک ہے۔برطانوی اخبار نے بھارتی جوہری پروگرام چلانے والے سائنسدانوں کے حوالے سے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت نے صرف ایک ہی تھرمو نیوکلیئر تجربہ کیا جو ناکام ہو گیا تھا۔رپورٹ کے مطابق بھارت جوہر ی ہتھیاروں کے متعلق پائی جانے والی صورت حال کی ذمہ دار حکومت ہے۔ایڈمرل پراکاش کاکہنا ہے کہ بھارت کی نیشنل کمانڈ اتھارٹی نہ باقاعدگی سے اجلاس کرتی ہے اور نہ ہی فیصلے لے پاتی ہے۔بھارتی جوہری ہتھیاروں کی انتظامیہ سائنسدانوں ، بیورکریٹس اور فوجیوں پر مشتمل ہے جو اس کی کمزوری کی بڑی وجہ ہے۔یہ رپورٹبلیٹن آف آٹامک سائینٹسٹ میں ہینس ایم کرسٹن اور رابرڑ ایس نورس کی طرف سے ’بھارتی جوہری طاقت2012 ‘کے عنوان سے شائع کی گئی۔

مزید خبریں :