Time 19 جولائی ، 2020
بلاگ

کیا ماضی کو بدلا جا سکتا ہے؟

فوٹو: فائل

ترک صدر طیب اردگان نے استنبول میں واقع تاریخی عمارت ’’آیا صوفیہ‘‘ (Hagia Sophia) کے میوزیم کو ایک بار پھر مسجد تبدیل کر دیا ہے، جس سے دنیا میں ترکی کا سیکولر ملک کی حیثیت سے تشخص بھی تبدیل ہونے کا تاثر پیدا ہوا ہے۔ 

اصل حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے قبل ’’آیا صوفیہ‘‘ کی عمارت کا مختصر تاریخی جائزہ لینا مناسب ہوگا۔ ترکی پر عیسائی راج کے دوران یہ عمارت 537میں کتھیڈرل چرچ (گرجا) کے طور پر تعمیر کی گئی تھی۔ 

جب یہ علاقہ سلاطینِ عثمانیہ کے تسلط میں آیا تو 1453میں اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ یعنی یہ عمارت 926سال تک گرجا کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ پھر جدید ترکی کے بانی کمال اتا ترک نے آیا صوفیہ کی مسجد کو واپس گرجا بنانے کے بجائے اسے 1943میں میوزیم میں تبدیل کر دیا، جسے دوبارہ صدر طیب اردوان نے گزشتہ دنوں مسجد بنانے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

ویسے تو تاریخ میں یہ کھیل بہت پرانا ہے۔ حکمرانوں نے اپنے مخالف مذہب یا مسلک کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے یا انہیں اپنی عبادت گاہوں میں تبدیل کرنے کا عمل جاری رکھا اور اس کے لیے کئی جواز مہیا کیے۔ 

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ دہائی میں افغانستان کے طالبان نے اپنے ملک میں بدھ مت، جین مت اور دیگر مذاہب کی تمام تاریخی یادگاروں، مجسموں اور آثار کو تباہ کر دیا۔ بھارت میں بابری مسجد کو مسمار کرکے رام مندر بنایا گیا۔ یہ سلسلہ اگر نہ رُکا تو پھر اس کا کوئی انت نہیں ہے۔ کیونکہ صرف تاریخی عمارتیں، یادگاریں اور آثار ملیا میٹ نہیں ہوتے بلکہ لوگ اپنی تاریخ کو مٹا رہے ہوتے ہیں۔

امریکی دانشور اور مورخ ول ڈیورانٹ نے اپنی کتاب ’’نشاط فلسفہ‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ اینگلو سیکسن نسل کے لوگوں نے عیسائیت کی ترویج کے لیے دنیا کو فتح کرکے اپنی نو آبادیات میں تبدیل نہیں کیا۔ انہوں نے مذہب کو اپنے سامراجی مقاصد، لوٹ مار اور ہوس حکمرانی کے لیے استعمال کیا تاکہ انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کی حمایت حاصل رہے۔ 

ہندوستان پر غزنویوں، ابدالیوں، مغلوں اور دیگر حملہ آوروں کے بھی یہی مقاصد رہے اور یہاں کے مقامی حکمران بھی اپنے دفاع یا اپنی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتے رہے اور یہ ریت اب تک جاری ہے۔

اب اس سلسلے کو ختم ہونا چاہئے کیونکہ ماضی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا، وہ سب تاریخی حقائق ہیں۔ خطے میں تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف مذاہب رہے۔ وہاں کی تہذیب اور ثقافت ارتقا پذیر ہوتی رہی۔ عبادت گاہوں، یادگاریں، عمارتیں، مجسمے، لباس، زیورات، تصویریں، مورتیاں، برتن، غرض ہر وہ شے، جو کسی عہد کی یادگار کے طور پر آج موجود ہے، وہ تاریخی ورثہ ہے۔ 

کئی نسلیں پہلے ہمارے آبائو اجداد کا مذہب مختلف ہوگا۔ اگر ہم ان کی یادگاروں کو محض اس لیے مٹادیں گے کہ وہ ہمارے مذہب کی نشانیاں نہیں ہیں، ہم اپنی تاریخ سے منکر ہو جائیں گے اور اپنے ماضی کو مٹا دیں گے، جس عہد کی جو یادگار یا نشانی جیسی ہے، اسے ویسے ہی رہنے دیا جائے۔ ہم تاریخ میں زیادہ دور نہیں جاتے۔ ہمارے (مرحوم) جنرل ضیاء الحق نے مذہب کے نام پر کیا کیا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی مذہب کے نام پر کیا کر رہا ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تاریخ میں یہ کھیل پرانا ہے تو طیب اردوان کو میوزیم کی مسجد میں تبدیلی پر تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ انہیں اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ترکی کا سیکولر آئین انہوں نے تبدیل کیا اور ترکی کو ایک مذہبی ریاست بنانے کے لیے اقدامات کیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ سب کچھ صحیح ہے یا غلط لیکن آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرکے وہ مذہبی عناصر کی جذباتی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 آیا صوفیہ فن تعمیر کا شاہ کار ہے، جہاں سیاحوں کا رش رہتا ہے۔ صدر طیب اردوان کو اپنے کاموں کی وجہ سے عوامی حمایت حاصل ہوئی تھی لیکن اس وقت ترکی میں معاشی حالات بہت خراب ہیں۔ افراطِ زر کی شرح 10فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ جی ڈی پی میں ترقی کی شرح صفر تا ایک فیصد ہے۔ دوسری طرف طیب اردوان نے ملک میں جو خوف ناک سیاسی محاذ آرائی کی، اس کے ردعمل کے آثار بھی جنم لے رہے ہیں۔ ان کے پاس مذہبی کارڈ کھیلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ 

آیا صوفیہ کے بالکل قریب عثمانیہ دور کی تاریخی مسجد احمد بھی موجود ہے، جہاں پوپ بینڈکٹ نے بھی دورہ کیا تھا۔ ابھی حال ہی میں طیب اردوان نے استنبول میں دنیا کی سب سے بڑی نو تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح کیا ہے۔ آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے اعلان سے ان کے کچھ اور مقاصد ہیں۔ 

یہ عمارت پہلے جب تک مسجد رہی، تب تک مغرب خصوصاً عیسائی دنیا میں اسے مسلمانوں کی طرف سے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں کو مساجد میں تبدیل کرنے کی علامت تصور کیا جاتا رہا اور اب بھی یہی تصور کیا جائے گا۔ اسی لیے کمال اتا ترک نے صرف اسی گرجا کو میوزیم بنایا تھا۔ ترکی مشرق اور مغرب خصوصاً اسلامی اور غیراسلامی مغربی دنیا کے مابین پل کا کردار ادا کر رہا تھا، جو اب نہیں رہے گا۔

ماضی کو فتح کرنا عقلمندی کی بات نہیں ہے، ماضی تاریخ ہے، جسے ہم بدل نہیں سکتے۔ افریقا میں غلامی کے ادوار کی یادگاریں اور آثار کو بھی محفوظ کیا جا رہا ہے کیونکہ انہیں پتا چل گیا ہے کہ جو تھا، وہ تھا۔ وہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ وہ ورثہ ہے۔ اچھا یا برا۔ محفوظ رہنا چاہئے۔ انسانیت کا، آنے والی نسلوں کا ورثہ، جس سے سبق سیکھ کر وہ بہتر انسانی معاشرہ بنا سکیں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔