03 اگست ، 2020
اسلام آباد ہائیکورٹ نے حکومت کو حکم دیا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کا وکیل مقرر کرنے کے لیے بھارت کو ایک بار پھر پیشکش کی جائے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کلبھوشن سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے حکومت کی کلبھوشن کا وکیل مقررکرنے کی درخواست پر سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اب معاملہ ہائی کورٹ میں ہے تو کیوں نا بھارت کو ایک اور موقع دیا جائے۔
عدالت عالیہ نے بھارت کو کلبھوشن جادھو کا وکیل کرنے کی پیشکش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ بھارتی حکومت یا کلبھوشن اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھاکہ بھارت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے سے بھاگ رہا ہے، ہم نے آرڈینینس جاری کرکے سزا کے خلاف نظرثانی درخواست دائر کرنے کا موقع دیاہے، وزارت خارجہ کے ذریعے دوبارہ بھارت سے رابطہ کیا جائے گا۔
عدالت نے کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کرنے کی حکومتی درخواست پر سماعت 3 ستمبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کو اپیل کا حق دینے سے متعلق خصوصی آرڈیننس جاری کیا ہے جسے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی پیش کردیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ وفاقی حکومت نےگذشتہ دنوں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیےکلبھوشن کا قانونی نمائندہ مقرر کرنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں حال ہی میں جاری کیے گئے صدارتی آرڈیننس کے تحت دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت کلبھوشن جادھو کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔
واضح رہے کہ ملٹری کورٹ نے کلبھوشن جادھو کو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا تھا جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی، بھارت کی جانب سے عالمی عدالت میں معاملہ لے جانے کے سبب کلبھوشن کی سزا پر عمل درآمد روک دیا گیا۔
7 جولائی 2019ءکو عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن جادھو کی بریت اور بھارت واپسی کی بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی کرے۔
عالمی عدالت کے مطابق پاکستان کی ہائی کورٹ جادھو کیس پر نظر ثانی کر سکتی ہے اور پاکستان کی سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا حق رکھتی ہے۔