Time 08 اگست ، 2020
بلاگ

بھارت، بھارت سرکار اور عوام

فوٹو:  فائل

میں نہیں کہہ رہا، چند روز پہلے بی بی سی نے جو کہا، اس کا خلاصہ کچھ یوں سمجھیں:’’ایٹمی جنگ امن کا راستہ نہیں۔ بھارتی عزائم خودکشی کا راستہ۔ پاکستان اور چین سے مار پڑ سکتی ہے۔ چین خطے میں سب سے زیادہ بالادست۔ صدر شی جن پنگ دشمنی کیلئے انتہائی خطرناک ہیں۔ ریسرچ اور ٹیکنالوجی میں چین امریکہ سے آگے نکل چکا۔

بھارت کا صرف 5 رافیل طیارے ملنے پر بغلیں بجانا بے وقوفی کی انتہا ہے۔ چین جنگی طیارے، طیارہ بردار بحری جہاز، آبدوزیں، میزائل، توپیں اور ٹینک خود تیار کرتا ہے جبکہ بھارت جنگی سامان امپورٹ کرتا ہے۔بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 71ارب ڈالر جبکہ چین کا دفاعی بجٹ 261ارب ڈالر ہے۔ چند منٹوں میں بھارت کا صفایا ہو سکتا ہے اور فائر پاور رپورٹ کے مطابق چین 507، بھارت150 اور پاکستان کے پاس 160ایٹم بم۔ محاذ کھلا تو پھر کچھ بھی نہیں بچے گا۔‘‘

یہ سادہ ، موٹی جٹکی سی باتیں بھارتی قیادت کو کیوں سمجھ نہیں آ رہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انتہا پسندی بندے مارنے سے پہلے خود اپنی مَت مارتی ہے اور انسان کی جب مَت ہی مر جائے تو پھر باقی کچھ نہیں بچتا۔ سیاسیات کا معمولی سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ بھارت کا اوپر سے نیچے، دائیں سے بائیں، مشرق تا مغرب، شمال تا جنوب آپس میں کچھ بھی نہیں ملتا۔

بولیوں، زبانوں سے لے کر مذاہب اور عقیدوں تک، شکلوں سے لے کر رنگتوں تک، قدو قامت اور ثقافت سے لے کر کھانوں اور دیوی دیوتائوں تک بھارتیوں میں شاید ہی کوئی قدر مشترک ہو۔ بھلا ہو سیکولرازم کا جس نے بھارت کو باندھا جوڑا ہوا تھا کہ یہی سیکولرازم سب سے اہم اور طاقتور یونائیٹنگ فورس تھی جو نریندر مودی کی ’’ہندو توائی‘‘ کے باعث تیزی سے پگھلتی جا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے غلط نہیں کہا کہ مودی پھنس چکا ہے اور ’’نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن‘‘ والی صورتحال سے دوچار ہے۔

ابھی تک یوں بھی جنون کا جوار بھاٹا اپنے عروج پر ہے لیکن کل کلاں اگر عقل آ بھی گئی تو شاید نہ نگلنے کے قابل ہو گا نہ اگلنے جوگا رہے گا۔ صرف بھارت ہی کیا، پورے خطے کی بدقسمتی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ضرورت تو کسی نیلسن منڈیلا جیسے مدبر کی تھی لیکن مل گیا نریندر مودی جیسا نیم خواندہ مہم جو۔

بھارت کی طرف سے چین کے نام نہاد معاشی بائیکاٹ سے لے کر 59ایپس (APPS)کو بین کرنے اور سب سے بڑھ کر کشمیریوں پر ننگے ظلم و ستم تک جیسا ’’پاگل پن‘‘ کب تک جاری رکھا جا سکتا ہے؟ ’’عالمی ضمیر‘‘ نامی شے بیشک گہری نیند سوئی ہوئی ہے لیکن فوت ہرگز نہیں ہوئی جبکہ دوسری طرف کشمیری حیران کن انداز اور رفتار سے اک ’’مارشل ریس‘‘ میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ہو چکے ہیں۔

بھارت کی ’’حکمران سیاسی دانش‘‘ کے دامن میں چھید ہی چھید ہیں جو نہیں جانتی کہ مارنا بہادری نہیں بلکہ مار کھا کر مسلسل ڈٹے رہنا بہادری کہلاتا ہے اور کشمیری یہ سائونڈ بیریئر بری طرح توڑ چکے ہیں۔رہ گئی وہ خود غرض، کاروباری، مفاد پرست دنیا جسے بھارت بطور ’’بڑی منڈی‘‘ بہت بھاتا اور للچاتا ہے اور اس میں برادر اسلامی ملک بھی شامل ہیں تو انہیں بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ سمجھانے، بتانے کی ضرورت ہے کہ ’’حیوانیت‘‘ اک خاص حد سے آگے نکل گئی تو سبھی کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔

پوری کی پوری ’’منڈی‘‘ ہی ایٹم برد ہو گئی تو نہ ’’دکانیں‘‘ باقی بچیں گی نہ تاجر نہ تجارت نہ سودا نہ سوداگر نہ گاہک نہ گواہ اس لئے انصاف کیلئے نہ سہی، اپنے تجارتی مفادات کیلئے ہی سوچیں کیونکہ صرف ملک ہی چھوٹے بڑے ہوتے ہیں، ایٹم بم صرف ایٹم بم ہوتا ہے، چھوٹا بڑا

نہیں ہوتا۔بموں کی آنکھیں نہیں ہیں جو دیکھ کر پھٹیںاور اپنے ٹکڑوں کو بے گناہوں سے دور پھینکیںپاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت انتہا درجہ کے تحمل، توازن، بردباری کا ثبوت دے رہی ہے جسے کمزوری سمجھنا اک اور قسم کی حماقت ہو گی۔

جموں اور کشمیر سے لے کر سکم اور حیدر آباد تک، جونا گڑھ سے لے کر گوا تک بھیڑیئے کے منہ کو توسیع پسندی کا خون لگا ہوا ہے جبکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ایٹمی طاقت نہیں تھا تو دوسری طرف دنیا بھر کی ’’شکاریات کی تاریخ‘‘ بتاتی ہے کہ آدم خور بالآخر خود اپنی آدم خوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔

خود سے پانچ گنا بڑی اقتصادی طاقت رکھنے والے چین کا ٹیکنالوجی بائیکاٹ بذات خود انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ بانجھ پن کی بھی دلیل ہے۔

CHESTER BOWLES نے شاید مودی سرکاری کیلئے ہی یہ تاریخی جملہ کہا تھاʼʼGOVERNMENT IS TOO BIG AND TWO IMPORTANT TO BE LEFT TO THE POLITICIANS.ʼʼدنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں انتہائی معقول اور متوازن لوگوں کی کمی نہیں، ان کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ اپنے عزت مآب سابق چیف جسٹس مرکنڈے کاٹجو صاحب (MARKANDEY KATJU) کی زندہ باضمیر آواز میں آواز ملائیں کہ اسی میں اس خطہ کی بہتری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔