Time 30 ستمبر ، 2020
بلاگ

کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟

فوٹو: فائل 

خاصا جانا پہچانا لیکن بہت ہی ادھورا سا محاورہ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، ادھورا اس لیے ہے کہ ہماری سیاست کی آنکھ میں تو شرم حیا بھی نہیں ہوتی، اس کے دل میں تو درد بھی نہیں ہوتا، اس کی کھوپڑی میں تو مغز بھی نہیں ہوتا، اس کے خون میں تو سرخی بھی نہیں ہوتی، سفیدی ہوتی ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی میں تو ضمیر بھی نہیں ہوتا۔

برسوں پہلے ایک بزرگ سیاستدان نے مجھے پاکستان کی سیاست سمجھاتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ کمبخت 3 قسم کی ’ناں‘ کے گرد گھومتی ہے۔

اول: اکیں ناں دوم: تھکیں ناں سوم: ج ھکیں ناں مختصراً یہ کہ ذلیل ہونے، مسلسل جھوٹ بولنے، وعدے شکنی، طوطا چشمی، خوشامد کرنے، لوگوں کو بار بار بے وقوف بنانے سے ’اکتانا‘ نہیں۔

بے شرمی، ڈھٹائی، بے حیائی سے مال بناتے ہوئے ’تھکنا‘ نہیں کیونکہ ’دولت بذریعہ سیاست اور سیاست بذریعہ دولت‘ ہی اس کھیل کا اکلوتا اصول، قانون اور ضابطہ ہے۔’جھکیں ناں‘ کا مطلب ہے کبھی جھجکنا شرمانا نہیں، رنگے ہاتھوں بھی پکڑے جائو تو صاف مکر جاؤ۔

کمزور ہو تو پاؤں پکڑتے ہوئے نہیں جھجھکنا اور اگر طاقتور ہو تو گریبان پکڑتے ہوئے نہیں شرمانا اور یہ گریبان چاہے تمہارے کسی محسن کا ہی کیوں نہ ہو مثلاً ایوب خان بھٹو کا محسن تھا جسے بھٹو صاحب ڈیڈی کہا کرتے لیکن اس کے جنازے کو کندھا تک دینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی۔

بھٹو مرحوم خود جنرل ضیاء الحق کے محسن تھے لیکن اسی ضیاء الحق نے پھانسی گھاٹ پر بھٹو کے سارے احسان چکا دیئے اور پھر ضیاء الحق کے ساتھ کیا ہوا؟ وہ نواز شریف جسے جنرل ضیاء نے اقتدار سے لے کر اپنی عمر تک دینے کی دعا دی، مدتوں سے اس کی قبر تک کا رستہ بھی بھول چکا کہ چند مستثنیات کو چھوڑ کر یہی اس گندے دھندے کا پہلا اور آخری اصول ہے۔

تازہ ترین سین دیکھ لیں، کل تک چوہدری پرویز الٰہی کی گاڑی کے آگے آگے لڈیاں ڈالنے اور پھر موسم بدلنے پر نواز شریف کے لیے کبڈیاں کھیلنے والا طلال رات گئے تنظیمی صلاحیتیں دکھاتے ہوئے ہڈیاں تڑوانے کے بعد غائب ہے اور فریقین کا کہنا ہے ’ہوا ہی کچھ نہیں‘ حالانکہ پولیس کو کی گئی کالز ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سیاست کی سمری ہی یہ ہے کہ ’اکیں ناں‘ تھکیں ناں، جھکیں ناں‘ اب چلتے ہیں ان کے عظیم قائدین کی طرف کہ شہباز شریف گرفتار ہو چکے کیونکہ منی لانڈرنگ کیس میں لاہور ہائیکورٹ سے عبوری ضمانت خارج ہو چکی۔

بھائی جان لندن میں بیماری کے باوجود ووٹ کو عزت دے رہے ہیں اور میگا منی لانڈرنگ کیس میں جناب آصف زرداری اور محترمہ فریال تالپور پر بھی فرد جرم عائد ہو چکی یعنی ہمارے پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت شدید خطروں میں گھری ہوئی ہے جس کے بارے اک شاعر نے اپنے مخصوص غیر پارلیمانی انداز میں کہا تھا۔

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں لیکن یہ تو مجذوب ہیں جبکہ طوائفوں اور مجذوبوں کے گھنگھرئوں میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ 

’’تھیا تھیا کہ نہ کوئی ابا نہ کوئی بھیا سب سے بڑا روپیہ‘‘ روپیہ ’’روپا‘‘ سے نکلا اور ’’روپا‘‘ چاندی کو کہتے ہیں اور چاندی میلی ہو جائے تو اس کی ’’لانڈرنگ‘‘ میں کیا برائی ہے کہ صفائی تو یوں بھی نصف ایمان ہے اور ’’ہاتھ کی صفائی‘‘ تو میری جان ہے۔

جسے یقین نہ آئے، وہ ’’کورونا‘‘ سے پوچھ لے کہ ہاتھ کی صفائی کتنی ضروری ہے یعنی جان کی جان اور ایمان کا ایمان، ایک تیر سے دو شکار، ایک ٹکٹ میں دو دو مزے اور ’’ٹکٹ‘‘ اگر کسی مقبول سیاسی پارٹی کا ہو تو صرف دو نہیں، اتنے مزے کہ گنے نہیں جا سکتے۔

یہ ہے ہماری سیاست یہ ہے ہماری جمہوریت اور یہ ہیں ہمارے سیاستدان لیکن مجال ہے کوئی رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر بھی مان جائے کہ بنیادی فلسفہ ہی ’’اکیں ناں، تھکیں ناں، جھکیں ناں‘‘ کے گرد گھومتا ہے۔

چلو میں مان لیتا ہوں کہ ان میں سے ہر شخص معصومیت کا ’’جم غفیر‘‘ ہے، ہر فرد دیانت و امانت کا پورا ’’قافلہ‘‘ ہے تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس ملک کا حشر نشر کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ چلو اس کو بھی چھوڑو ۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے صرف ٹاپ ٹین لیڈرز اپنی اپنی اولادوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ ہماری قیادتیں دیانتدار ہیں اور ان میں سے کسی نے کبھی دھیلے، پائی کی کرپشن بھی نہیں کی۔

میں اپنی گزشتہ تحریروں پر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لوں گا، آئندہ کے لیے توبہ کر کے اپنا قلم ان کے قصیدوں کے لیے وقف کر دوں گا اور پھر کبھی نہیں پوچھوں گا کہ اس ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا......کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔