18 اکتوبر ، 2020
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے جس تحریک کا آغاز کیا ہے، کیا یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گی اور اس تحریک کے پاکستان کی سیاست پر کیا اثرات ہوں گے؟
یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے تناظر میں آج کل لوگوں کے ذہنوں میں آرہے ہیں، معروضی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر دیا ہے اور اب ساری دنیا کی نظریں کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے پر لگی ہوئی ہیں جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالم میں بھی تحریر کر چکا ہوں کہ کراچی کا جلسہ نہ صرف پی ڈی ایم کی تحریک کے خدوخال کو نمایاں کرے گا بلکہ پاکستان کی مستقبل کی سیاست کا بھی تعین کرے گا۔
مختلف وجوہ کی بنا پر یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ کراچی میں پی ڈی ایم 18 اکتوبر کو اپنی بھرپور سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرے گی اور یہ جلسہ عام لوگوں کی شرکت کے حوالے سے نئے ریکارڈ قائم کر سکتا ہے لیکن کراچی کے جلسے کے بعد اپوزیشن کا یہ سیاسی اتحاد اسی قوتِ رفتار ( Momentum ) کو برقرار رکھ سکے گا اور اس اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ثابت قدم رہ سکیں گی کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والی قوتیں پی ڈی ایم کو توڑنے یا کمزور کرنے کی اپنی کوششوں میں اضافہ کر دیں گی۔
دو عوامل ایسے ہیں، جو پی ڈی ایم کی تحریک کے حق میں ہیں، پہلا عامل یہ ہے کہ پاکستان سمیت پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا کے ممالک میں سیاسی سرگرمیوں کے لیے فضا سازگار ہو رہی ہے، جو امریکا کے نائن الیون کے واقعہ کے بعد دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ماحول میں بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی۔
گزشتہ دو عشروں میں نہ صرف سیاسی سرگرمیوں کا ماحول نہیں تھا بلکہ ترک ِسیاست ( Depoliticization ) کا ماحول بنا دیا گیا تھا، اس ماحول میں مقامی اور عالمی ہیئت مقتدرہ کی مخالف سیاسی قوتوں کے لیے سیاست مشکل تر بنا دی گئی جبکہ حامی قوتوں کے لیے میدان خالی کرکے دے دیا گیا۔
اب کسی حد تک یہ حالات نہیں رہے، اگرچہ پاکستان میں دہشت گردی اب بھی ہو رہی ہے اور سیاسی رہنماؤں کے لیے خطرات کی بھی مختلف ادارے نشاندہی کر رہے ہیں، اس کے باوجود سیاسی جماعتیں وہ رسک لے رہی ہیں، جو کچھ عرصہ پہلے نہیں لے سکتی تھیں۔
کراچی کے جلسہ سے ایک ہفتہ قبل ممتاز عالم دین ڈاکٹر عادل خان کی دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کے واقعہ نے نہ صرف سیاسی قوتوں کی تشویش میں اضافہ کیا ہے بلکہ کراچی کی فضا میں خوف و دہشت بھی پھیلائی ہے۔
گوجرانوالہ کے جلسہ سے قبل بلوچستان اور وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے بڑے حملے ہوئے، جن میں 21 افراد شہید ہو گئے۔ تاہم سیاسی عمل کے روکنے والے پہلے جیسے حالات نہیں ہیں، علاقائی اور عالمی سطح پر نئی سیاسی صف بندیوں اور نئی سیاسی تحریکوں کے بھی پاکستان کی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنی پالیسیوں، انداز حکمرانی اور غیر لچکدار سیاسی بیانیے کی وجہ سے اپنی وہ عوامی حمایت کھو رہی ہے، جو اسے جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے پہلے حاصل تھی۔
مہنگائی اور بیروزگاری میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے لوگوں میں شدید سیاسی بے چینی پیدا کر دی ہے، جسے پی ڈی ایم اپنی تحریک کی قوت میں تبدیل کر سکتی ہے، گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں کے بعد یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ اپوزیشن کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، وہ اگر تحریک کے اگلے مرحلے یعنی دھرنوں کی طرف جانا چاہےتو وہ ایسا کر سکتی ہے۔
مذکورہ بالا دو عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی تحریک کے لیے نہ صرف داخلی بلکہ خارجی حالات بھی سازگار ہیں لیکن ماضی کے سیاسی اتحادوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ان اتحادوں کی احتجاجی تحریکوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ پاکستان کے حقیقی مقتدر حلقوں کا حالات کے مطابق کیا فیصلہ ہے۔
عام تاثر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے، یہ ٹھیک ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک اس لیے کامیاب ہوئی کہ اسے ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی۔
1990ء سے 1999ء تک محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی حکومتوں کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) اور پاکستان جمہوری اتحاد (پی ڈی اے) اور دیگر اتحادوں کی تحریکیں اس لیے کامیاب ہوئیں کہ اسٹیبلشمنٹ ایسا چاہتی تھی۔
ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) اور پرویز مشرف کی حکومت کے خلاف اتحاد برائے بحالی جمہوریت (اے آر ڈی) کی تحریکیں اس لیے کامیاب نہیں ہوئیں کہ اس وقت ملکی اور عالمی مقتدر حلقے ایسا نہیں چاہتے تھے۔
یہ اور بات ہے کہ ان تحریکوں کے اثرات آج بھی پاکستان کی سیاست پر دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ہم نے تاریخ میں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایوب خان کے خلاف متحدہ جمہوری محاذ (یو ڈی ایف) کی تحریک اور پرویز مشرف کے خلاف وکلاء کی تحریک بالآخر کامیاب رہیں حالانکہ مذکورہ دونوں فوجی حکمرانوں کے بارے میں یہ تاثر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پیش نظر صرف اپنی پسند کی حکومت کا تحفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ دیگر داخلی اور خارجی عوامل پر بھی نظر رکھتی ہے۔ پی ڈی ایم کے سیاسی طاقت کے حالیہ مظاہروں کے بعد پاکستان میں ’’اسٹیٹس کو‘‘ کو برقرار رکھنا ایک چیلنج ہو گا ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔